پروفیسر سحر انصاری
قلم برائے امن
سب سے پہلے تو مےں اکادمی ادبےات کے ارباب حل و عقد کا خصوصاً جناب فخر زمان اورآغانور محمد پٹھان کا شکرےہ ادا کروںگا کہ انہوں نے قلم اور امن کے تعلق کو اُجاگر کرنے کے لےے ےہ کُل سندھ کانفرنس منعقد کی۔ اےک قول بہت پُرانا ہے کہ امن کی قدر جنگ کے زمانے مےں ہوتی ہے۔ ہمےں آج کل مقامی اور عالمی سطح پر جو خطرات درپےش ہےں ان کی وجہ سے امن کے بارے مےں سوچنے اور کوئی لائحہ عمل متعےن کرنے کا سلسل بڑھتا جار ہا ہے۔
امن جب تک ہماری زندگی کا حصہّ بنا رہتا ہو پر ہم اس کے بارے مےں غور و فکر نہےں کرتے بلکہ اُسے سورج کی روشنی چاند کی چاندنی اور مےدانوں کی تازہ ہوا کی طرح فطرت کا عطےہ سمجھتے ہےں لےکن جب کسی وجہ سے اس مےں بگاڑ پےدا ہوتا ہے توقےام امن کی تدابےر پر ساری توجہ مرکوزہوجاتی ہے۔
دنےا کی بڑی طاقتوں نے جو حکمت عملی اپنی بالادستی کے لےے اختےار کر رکھی ہے اس مےں سب سے بڑا طرےقہ ےہ ہے کہ چھوٹی اور کمزور طاقتوں کو جنگ مےں الجھاےا جائے۔ وےت نام، بوسےنا، عراق، افغانستان اور کشمےر کے واقعات و حالات ہماری نظروں کے سامنے ہےں۔ جہاں وسےع پےمانے پر جنگ مسلط نہےں کی جاسکتی وہاں مقامی مسائل کو تشدد، دہشتگردی اور تخرےبی کاروائےوں کے ذرےعے حل کرنے کے اسباب مہےا کردےے جاتے ہےں۔
پاکستان اپنے ہمساےہ ملک بھارت کے درمےان دوبڑی جنگےں لڑی جا چکی ہےں۔ دونوں کا انجام تارےخ کے خون چکاں او راق پر مسلسل نوحہ خوانی کررہا ہے۔ 9/11 کے بعد اےک اور انداز سے امن کو خطرہ لاحق ہورہا ہے۔ وہ دہشتگردی، خودکش حملے،تخرےبکاری اور معصوم شہرےوں کی مسلسل ہلاکتوں کا سلسلہ۔ پاکستان مےں اتنا جانی اور مالی نقصان جنگوں کے دوران نہےں ہوا جتنا کہ اس دہشتگردی کے ماحول مےں ہورہا ہے۔
امن کوئی تحرےری ، ےا خےالی شے نہےں۔ ےہ طرز حےات اور معےار دانش کا نام ہے۔ اس مےں جوش سے زےادہ ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذہب، زبان، علاقہ، مسلک و عقےدہ کی بنےاد پر بہت جلد اشتعال انگزی ہوسکتی ہے۔ ےہ مظاہر آئے دن ہمارے معاشرے مےں رونما ہوتے رہتے ہےں۔ نتےجہ ےہ کہ تعلےم ،صحت، تحقےق اور ترقی کے راستے محدود ہوتے جارہے ہےں۔
وےت نام کے نقلابی قائد، ہوچی مہنہ نے آمرےکا سے کہا تھا کہ چالےس سالہ جنگ کے دوران انڈر گراو¿نڈ ماحول مےں پرورش پانے والی نسلوں کو تم امن کا کون ساتصور دےنا چاہتے ہو۔ بات ےہی ہے کہ ہم اور ہماری نئی نسل اےک خوف کے عالم مےں زندگی گذار رہی ہے۔
ہر لمحہ ہر گھرمےں اپنے پےاروں کے سلامتی کی دعائےں کی جاتی ہےں۔ زندگی کا صحےح لطف غارت ہوتا جارہا ہے۔ ہم سڑکوں عمارتوں موٹر کاروں اور موبائےل کے روز افزوںکلچر سے اپنی ترقی کی پےمائش کر رہے ہےں۔ ےہ اےک فرےب ہے۔ اصل ترقی اس وقت ہوتی ہے، جب عام آدمی کا ذہن ہر قسم کے ٹےنشن (Tension) سے آزاد ہو۔ وہ تحقےق اےجاد اور زندگی کی جمالےات پر اپنا زےادہ وقت صرف کرسکےں۔
کئی مفکرےن ےہ بھی کہتے ہوئے پائے گئے کہ امن کے لےے جنگ بھی کرنی ہوتو کوئی حرج نہےں۔ لےکن ہم اہل قلم ہےں۔ ہمےں اےسی ہر جنگ ہتھےاروں سے نہےں اپنے قلم اور اپنے مثبت افکار و خےالات سے لڑی ہوگئی۔ تارےخ عالم کے صفحات گواہ ہےں کہ قلم ہی کے ذرےعے امن قائم ہوتا ہے۔ ہمےں امےد رکھنی چاہےے کہ ہمارے اہل قلم اور ارباب دانش اپنی تحرےروں کے ذرےعے دہشتگردی اور تحرےبکاری کو شکست دے سکےں گے تاکہ ہمارا مستقبل امن کے ساےے مےں سانس لےے سکے اور ہم معےشت القوم تعمےر و ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکےں۔
قلم برائے امن
سب سے پہلے تو مےں اکادمی ادبےات کے ارباب حل و عقد کا خصوصاً جناب فخر زمان اورآغانور محمد پٹھان کا شکرےہ ادا کروںگا کہ انہوں نے قلم اور امن کے تعلق کو اُجاگر کرنے کے لےے ےہ کُل سندھ کانفرنس منعقد کی۔ اےک قول بہت پُرانا ہے کہ امن کی قدر جنگ کے زمانے مےں ہوتی ہے۔ ہمےں آج کل مقامی اور عالمی سطح پر جو خطرات درپےش ہےں ان کی وجہ سے امن کے بارے مےں سوچنے اور کوئی لائحہ عمل متعےن کرنے کا سلسل بڑھتا جار ہا ہے۔
امن جب تک ہماری زندگی کا حصہّ بنا رہتا ہو پر ہم اس کے بارے مےں غور و فکر نہےں کرتے بلکہ اُسے سورج کی روشنی چاند کی چاندنی اور مےدانوں کی تازہ ہوا کی طرح فطرت کا عطےہ سمجھتے ہےں لےکن جب کسی وجہ سے اس مےں بگاڑ پےدا ہوتا ہے توقےام امن کی تدابےر پر ساری توجہ مرکوزہوجاتی ہے۔
دنےا کی بڑی طاقتوں نے جو حکمت عملی اپنی بالادستی کے لےے اختےار کر رکھی ہے اس مےں سب سے بڑا طرےقہ ےہ ہے کہ چھوٹی اور کمزور طاقتوں کو جنگ مےں الجھاےا جائے۔ وےت نام، بوسےنا، عراق، افغانستان اور کشمےر کے واقعات و حالات ہماری نظروں کے سامنے ہےں۔ جہاں وسےع پےمانے پر جنگ مسلط نہےں کی جاسکتی وہاں مقامی مسائل کو تشدد، دہشتگردی اور تخرےبی کاروائےوں کے ذرےعے حل کرنے کے اسباب مہےا کردےے جاتے ہےں۔
پاکستان اپنے ہمساےہ ملک بھارت کے درمےان دوبڑی جنگےں لڑی جا چکی ہےں۔ دونوں کا انجام تارےخ کے خون چکاں او راق پر مسلسل نوحہ خوانی کررہا ہے۔ 9/11 کے بعد اےک اور انداز سے امن کو خطرہ لاحق ہورہا ہے۔ وہ دہشتگردی، خودکش حملے،تخرےبکاری اور معصوم شہرےوں کی مسلسل ہلاکتوں کا سلسلہ۔ پاکستان مےں اتنا جانی اور مالی نقصان جنگوں کے دوران نہےں ہوا جتنا کہ اس دہشتگردی کے ماحول مےں ہورہا ہے۔
امن کوئی تحرےری ، ےا خےالی شے نہےں۔ ےہ طرز حےات اور معےار دانش کا نام ہے۔ اس مےں جوش سے زےادہ ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذہب، زبان، علاقہ، مسلک و عقےدہ کی بنےاد پر بہت جلد اشتعال انگزی ہوسکتی ہے۔ ےہ مظاہر آئے دن ہمارے معاشرے مےں رونما ہوتے رہتے ہےں۔ نتےجہ ےہ کہ تعلےم ،صحت، تحقےق اور ترقی کے راستے محدود ہوتے جارہے ہےں۔
وےت نام کے نقلابی قائد، ہوچی مہنہ نے آمرےکا سے کہا تھا کہ چالےس سالہ جنگ کے دوران انڈر گراو¿نڈ ماحول مےں پرورش پانے والی نسلوں کو تم امن کا کون ساتصور دےنا چاہتے ہو۔ بات ےہی ہے کہ ہم اور ہماری نئی نسل اےک خوف کے عالم مےں زندگی گذار رہی ہے۔
ہر لمحہ ہر گھرمےں اپنے پےاروں کے سلامتی کی دعائےں کی جاتی ہےں۔ زندگی کا صحےح لطف غارت ہوتا جارہا ہے۔ ہم سڑکوں عمارتوں موٹر کاروں اور موبائےل کے روز افزوںکلچر سے اپنی ترقی کی پےمائش کر رہے ہےں۔ ےہ اےک فرےب ہے۔ اصل ترقی اس وقت ہوتی ہے، جب عام آدمی کا ذہن ہر قسم کے ٹےنشن (Tension) سے آزاد ہو۔ وہ تحقےق اےجاد اور زندگی کی جمالےات پر اپنا زےادہ وقت صرف کرسکےں۔
کئی مفکرےن ےہ بھی کہتے ہوئے پائے گئے کہ امن کے لےے جنگ بھی کرنی ہوتو کوئی حرج نہےں۔ لےکن ہم اہل قلم ہےں۔ ہمےں اےسی ہر جنگ ہتھےاروں سے نہےں اپنے قلم اور اپنے مثبت افکار و خےالات سے لڑی ہوگئی۔ تارےخ عالم کے صفحات گواہ ہےں کہ قلم ہی کے ذرےعے امن قائم ہوتا ہے۔ ہمےں امےد رکھنی چاہےے کہ ہمارے اہل قلم اور ارباب دانش اپنی تحرےروں کے ذرےعے دہشتگردی اور تحرےبکاری کو شکست دے سکےں گے تاکہ ہمارا مستقبل امن کے ساےے مےں سانس لےے سکے اور ہم معےشت القوم تعمےر و ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکےں۔