Dr Dur Muhammad Pathan

پروفیسر ڈاکٹر دُر محمد پٹھان
بانی گل حیات انسٹیٹیوٹ لاڑکانہ
میں اکادمی ادبیات پاکستان کے منتظمین کا مشکور، اور مکرمی فخرزمان کا ممنوں ہوں، جنہوں نے مجھے دانشوروں کی اس پارلیمنٹ میں اظہار خیال کا موقع فراہم کےا ہے۔ سےمےنار، کانفرنس ےا کوئی ادبی اجلاس، مےری نظر مےں ادبی، علم اور فکری پارلےامنٹ کی حےثےت کا حامل ہوتا ہے۔ اس پارلےامنٹ کے توسط سے اہل علم و دانش قوم کا فکری اور نظرےاتی کعبہ قبلہ درست کرنے کے لےے فےصلے کرتے ہےں اور راہ ِ عمل تجوےز کرتے ہےں۔
ہماری قوم گذشتہ برسوں سے دہشتگردی اور بدامنی کے حالات سے پےدا شدہ مصائب کو بھگت رہی ہے۔ کرب وبلا کی ےہ فصل انہوںنے خود نہےں اُگائی۔ شہےد بھٹو نے حالات کی پےش گوئی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر مےں مارا گےا تو ہمالےہ روپڑےگا اور سندھو ندی مےں خون بہنے لگے گا۔ ہم نے انہےں ابدی نےند کے حوالے کردےا اور ہمارے نےندےں اڑگئےں! آج ہمےں دن کے تارے نظر آر ہے ہےں!!
جناب فخر زمان کی ذرہ نوازی ہے کہ مجھ جےسے چھوٹے آدمی کو بڑی باتےں کرنے اور کہنے کا اعزاز بخشا ہے۔ بلاشبہ مےں علم و ادب کا معمولی طالب العلم ہوں۔ لہٰذا مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ جب کوئی قوم دہشتگردی اور بدامنی کے آگ کی درےاہ کو عبور کر رہی ہو تو ”علم ادب“ اس آگ کے انگاروں کو پھولوں مےں بدل سکتا ہے۔ جہاں تک ”امن“ کا مسئلہ ہے مےں اس عظےم اور مقدس ”لفظ“ کے مفہوم سے غےر آگاہ ہوں، اس لئے کہ اپنی زندگی مےں مجھے امن دےکھنے اور مستفےد ہونے کا موقع ہی نہےں ملا جب مےں نے کبھی ”امن“ دےکھا ہی نہےں تو اس کے قد و قامت، اوصاف و اطوار پر کےونکر روشنی ڈال سکتا ہوں۔
”امن“ کو دےکھنے ، محسوس کرنے اور سمجھنے کے لےے مےں نے کتب کی اوراق گردانی اس لئے نہےں کی کہ کتابوں مےں لکھی گئی باتون کی جھلک اور اثرپذےری کا، ہماری عملی زندگی مےں کوئی نام و نشاں ہی نظر آتا۔ اگر کوئی اےسی بات ہوتی اور ہمےں اچھی باتوں کا اثر نظر آتا تو اسلامی نظام نافذ کرنے کے نام پر اےک مسلمان دوسرے مسلمان کو گاجر اور مولی کی مانند نہےں کاٹتا۔ اسلام نے مرد اور عورت کو حصول تعلےم کا حُکم فرماےا اور ےہ لوگ بے جگری بلکہ بے حےاکی سے تعلےمی اداروں کو مسمار نہ رکرتے۔ اسلام نے تو خود کُشی کو حرام قرار دےا ہے۔ پھر ےہ آپگھاتی حملے اسلامی تعلےم کے کس زمرہ مےں آتے ہےں۔ ان باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اےسے لوگوں کے مسلمان ہونے پر کامل شک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہےں رہتا۔
ہمےں مسلمان ہونے کی سزا دےنے والے، مسلمان نما آستےن کے سانپوں کا چہرہ دےکھنے کے لئے کلام خداوندی سے استفادہ کرتے وقت بڑی مدد ملتی ہے۔ قرآن مجےد مےں فرماےا گےا ہے کہ: جو فاسق ہےں، اللہ کے عُہدکو مضبوط باندھ لےنے کے بعد توڑ دےتے ہےں، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دےا ہے۔ اسے کا ٹتے ہےں، اور زمےن مےں فسادبرپا کرتے ہےں، حقےقت مےں ےہ ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہےں“۔ (سورہ بقر، آےت ۶۲) ربِ کرےم نے انسانذات کو اپنا کنبہ قرار دےا، اسلام نے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دےا۔ سماجی، علمی اور فکری رشتو مےں جوڑے کے لےے ہمےں اللہ کی رسی/ڈوری کو مضوطی سے پکڑنے کا حکم ملا۔ اےک مسلمان دوسرے مسلمان کو دےکھتا ہے۔ السلام علےکم ”تجھ پر سلامتی ہو“ کی دعا دےتا ہے اور اےسی تمنا رکھتا ہے۔ السلام علےکم جےسے انمول اور دعائےہ الفاظ نشاور کرنے والے گولےوں ، راکٹوں اور بموں کی بوچھار نہےں کرسکتے۔ لگتا ہے کہ مسجدِ زرار کی تعداد مےں اضافہ ہوگےا ہے ۔ اور ہم جانتے ہےں کہ مسجدِ زرار کے مناروں سے اسلام کی تبلغ نہےں ہوا کرتی ۔
معاشرے کے امن و امان کو تباہ و برباد کرنے والا اور انسانوں کا قتل عام کرنے والا ےہ وہ ہی گروہ ہے جس کے لئے قرآن شرےف مےں فرشتوں کے حوالے سے ذکر آتا ہے۔ جب خداوند قدوس نے فرماےا کہ ” مےں زمےں مےں اےک خلےفہ بنانے والا ہوں“ تو فرشتوں نے التجا کی کہ :”آپ زمےن مےں کسی اِسے کو مقرر کرنے والے ہےں، جو اُس کے انتظام کو بگاڑدے گا اور خونرےزی کرے گا؟“ (سورة بقر، آےت ۰۳)
امن وامان، معصوم ، نھتے اور مظلوم انسانوں کو تباہ و برباد کرنے والا مساجِد زرار کے وارث لوگ انسان دشمنی تو کرتے ہی ہےں لےکن اس کے عِلاہ ان لوگوں نے اللہ تبارک کے اعتماد کی انحرافی بھی کی ہے۔
ہمےں اپنی ذات پر اعتماد ہے، ہمارا کامل ےقےن ہے اور رب کرےم بھی ےہ ہی فرماتے ہےں کہ ”ےہ ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہےں“ رات کتنی ہی تارےک اور بھےانک کےوں نہ ہو، سورج تو ہر حالت مےں طلوع ہوتا ہے۔ ہمارے دکھ نگر مےں سُکھ اور سکوں کا سورج جگمگا اٹھے گا۔ امن قائم ہوگا اور ےہ لوگ نقصان اٹھانے والے ہی ثابت ہونگے۔
پھر بات آتی ہے کہ ”امن“ کس چےز کا نام ہے۔ مےرے مطابق ”انصاف“ ’محبت“ اور ”نفرت“ کے الفاظ کے ابتدا ´ئی حروف لے کر ”امن“ نے جنم لےا ہے۔ ”انصاف“ سے ”الف“، ”محبت“ سے ”مےم“ اور ”نفرت“ سے ”نوں“ ”محبت“ اور ”نفرت“ انسانی خمےر ضمےر اور فطرت کے اٹوٹ رنگ ہوتے ہےں۔ دونوں جذبوں کی اہمےت بھی ہے تو عظمت بھی ہے انسان کے لئےے ”محبت“ اور ”نفرت“ کے دونوں جذبے اپنے اعمال مےں رگ و بو پےدا کرنے کے باعث ہوتے ہےں۔ البتہ ان دونوں جذبوں مےں توازن برقرار رکھنے کے لئے ”انصاف“ اور عدل کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے منسوب اس قول مےں کتنی تو دانشمندی پنہاںہے۔ فرماےا گےا کہ کفر سے حکومت تو قائم ہوسکتی ہے، لےکن ظلم ےا بی انصافی سے نہےں“۔ ”انصاف“ نہ ہو تو ”امن“ کا تصور بھی نہےں کےا جا سکتا۔
”انصاف“ فقط عدالتوں کے اندر اور عدالتوں کے توسط سے ہی نہےں کےا جاتا ، لےکن انصاف تو ہر فرد، ادارے اور قوم پر محےط اےک جامع فکری اور نظرےاتی روےہ ہے۔ جسے اختےار کئے بغےر ہم امن قائم نہےں کرسکتے ”امن“ سے اگر ہم نے ”انصاف“ کا ”الف“ نکال دےا تہ امن بن جائے گا۔ وہ ”من“ جس کے لئے علامہ اقبال نے فرماےا تھا کہ ”من اپنا پرانا پاپی ہے“۔ ےہ ہاہی من الف کے بغےر ”محبت“ مےں انسان کو دےوانہ اور ”نفرت“ مےں وحشی بنا ڈالے گا۔
ہم نے ”امن“ سے انصاف کو خابے دہشت اور وحشت کے کلچر کو عام کےاہے۔ ہم نے ”جس کی لاٹھی، اس کی بھےنس“ کی رواےت زندگی کے ہر اےک شعبے پر مسلط کردی۔ حےات پاکستان کے عرصہ دراز پر ہم نے مارشل لا کے ڈنڈے سے حکمرانی کی اور پوری قوم کے لئے مثال قائم کردی کہ قلم کی نوک سے قوم کے روشن مستقبل کی کہانی نہےں لکھی جائے گی۔ کاشتکار کے ہل کی نوک سے کھےتوں اور کھلےانوں کو آباد نہےں کےا جا سکتا ۔ ہمارے تمام تر سماجی، معاشرتی، سےاسی، اقتصادی حتیٰ کہ مذہبی مسائل کا حل گولی کی نوک سے وابستہ ہے۔ نتےجہ ےہ نکلا کہ ”جےسا راجا، ویسی پرجا“ کے مصداق دہشتگردی اےک مقبولِ عام کلچر بنتا گےا اور اس طرح ہم امن کے پاو¿ں اکھاڑتے رہے۔ اب حالات ہمارے پاو¿ں اکھاڑ رہے ہےں۔
ہمےں تارےخ کے اوراق بتاتے ہےں کہ جب کبھی ادارے علم و دانش کے برعکس اسلحے کے اکھاڑے بن جاتے ہےں۔ جب تنظمےوں کے تسلط کو ،بم لوگوں سے قائم کےا جاتا ہے اور جب عام آدمی کی زندگی اےسی اجےرن بنائی جاتے ہے کہ انسان زمےن کے سےنے پر سانس لےنے کے بجائے زمےن کی شکم کو جائے پناہ بنانے لگتا ہے توعلم و ادب اپنی تمام تر قوت اور صلاحےتوں کے ساتھ متحرک ہوجاتا ہے۔ اہِل علم و قلم ، فکر و دانش تصوف کی تجلےوں سے اپنے عمل، علم اور قلم کو روشن مےنار بنادےتے ہےں۔ اس ہی روشنی مےں لوگوں کو کو خود آگھی اور خودشناسی کا کھوےا ہوا خزانہ، تلاش کرنے مےں مدد ملتی ہے۔
تصوف کا مکتبہ فکر ہمہ اوستی ہو ےا ہمہ از اوستی ہو، لےکن ہر اےک انسانی احترام کی تعلےم دےتا ہے، ذاتی گروہی اور مفادی نفرت سے نفرت کرنے کا درس دےتا ہے۔ چھوٹے اور بڑے، امےر اور غرےب اور مختلف مذاہب کے مقلدےن کا فرق مٹانے کی قابل قبول کا دش کرتا ہے۔ تصوف ایسے اداروں اور گروھوں کی نفی کرتا ہے۔ جن سے انسان کو سماجی، فکری، علمی اور معاشی طور پر نادار، مفلس اور کنگال بناےا جاتا ہے۔
علم وادب ہر دور مےں عوام کو ”جاگتے رہو“ کی آواز دےتا ہے، اور اس حوالے سے افراد کی شخصےت تکمےل اور اس کے کردار کی تعمےر کرتا ہے۔ شاہ لطےف کی مفکرانہ اور دانشورانہ تخلےق سے پہلے علم اور عمل ادب اور عوام کے باہمی رشتوں کو کاٹا گےا۔ نتےجتاً تارےخ رنے فےصلہ صادر کردےا کہ ” شامتِ اعمال ما، صورتِ نادر گرفت“ شاہ لطےف کو ےہ ہی ٹوٹا پھوٹا انسان اور سماج اپنی ادبی اےجنڈہ مےں شامل کرنا پڑا۔ سچل سرمست کے زمانے مےں مدد خان اور شاہ شجاع نے سندھ کے معاشرے پر مصےبتوں کے پہاڑ گرادےئے۔ بدامنی، معاش بدحالی اور عدم احترام برائے انسان جےسے حالات کی کوکھ سے لطےف اور سچل جےسے مفکرےن نے جنم لےا، جنہوں نے تصوف اور علم ادب کے توسط سے عام آدمی اور سماج کو سورج کی مانند انسانی تارےخ مےں جلوہ گر کردےا ۔
بدامنی اور بدحالی، بقول اورارق تارےخ ”شامتِ اعمال ما“ کی کوکھ سے جنم لےتے ہےں۔ اعمال شامت کی صورت اس وقت اختےار کرتے ہےں، جب حقوق کا نام و نشاں مٹانے کو کوشش کی جاتی ہے۔ قوم کے حقوق، معاشرے کے حقوق، رےاست کے حقوق اور سےاست کے حقوق وغےرہ وغےرہ۔ اور گنے چُنے لوگ غاصبِ حقوق کی صورت مےں اپنے آپ کو سےاست اور حکمرانی، علم ودانش، دےن اور دھرم مےں کامل، مکمل اور عقلِ کل سمجھنے لگتے ہےں۔ بدامنی، بدحالی، بربادی اور تباہی کی کہانی ےہاں سے شروع ہوتی ہے۔ معاشرے مےں ٹوٹ پھوٹ اور سماجی تقسےم درتقےم کا عمل ےہاں سے شروع ہوتا ہے۔ جب شاہ لطےف اور سچل سرمست کے زمانے مےں اس طرح فکری انحطاط کا آغاز ہوا، اور مٹھی بھر لوگ اپنے آپ کو صوفی صدحق پر ہونے کی دعویٰ کرکے مذہب سےاست اور معےشت پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے لگے توسندھ کے شمال اور جنوب مےں مذہبی اور سےاسی حرےفوں کی شھادتوں کی سلسلہ شروع ہوا، اور متعدد مقامات پر اصحابِ اقتدار کے اےما پر بدامنی پےدا کرا کے عوام مےں خوف و ہراس بھی پےدا کےا گےا شاہ لطےف اور سچل سرمست اور دےگر صوفی شعراءنے اپنے وقت کے مذہبی سےاسی اور معاشی غاصبوں کے خلاف علمی، عملی، فکری اور ادبی جہاد شروع کےا، اور اپنی جانوں کی پرواہ بھی نہےں کی۔ شاہ عناےت صوفی کی شہادت اس جہاد کی اےک مثال ہے۔
جب بدامنی بدحالی اور بدحالی طائف الملوکی کو جنم دےتی ہے تو اغےاروں کو پہلے ملکی معاملات مےں مداخلت کرنے اور آخر کار حملہ ےا قبضہ کرنے کا موقع مےسر ہوجاتا ہے۔ شاہ لطےف اور سچل سرمست کے زمانے مےں حالات جب اےسی کروٹ لےنے لگے تو ان صوفی شعراءنے اپنا قومی کردار ادا کرنا شروع کےا۔ شاہ لطےف نے ےوں تو اپنی شاعری مےں زےادہ تر تمثےل کو توسط سے بابت کی ہے۔ لےکن وطن کی خودمختاری کو لاحق خطرہ محسوس کےا تو کُھل کر بات کی۔ مثلاً ےہ عظےم صوفی شاعر سُر سرےراگ کی داستان تےسری مےں فرماتے ہےں:
ہمارے ناخداو¿ں کو ہُوا کیاہے۔
بدل کر بھےس آئے ہےں فرنگی۔۔۔۔۔ الخ
سچل سرمست نے بھی بلکل اس طرح فرنگےوں کے خلاف شاعری فرمائی، لوگوں نے اورحکمرانوں نے ان کی بات سمجھنے کو کوشش نہےں کی اور سندھ پر فرنگی قابض ہوگئے ۔
مذاہب عَالم کی تارےخ بتاتی ہے کہ مذہبی انتہاپسندی، مذہبی تنگ دلی اور غےر مذاہب کے ماننے والوں کو زبردستی اپنے مذہب کی پےروکار بتانا اور ہم مذہب لوگوں کو اپنی پسند کی ’ صراط مستقےم‘ پر چلانے کا جنوں اکثر مذاہب کے مختلف ادوار مےں پاےا گےا ہے۔ ایسے حالات کے بھنور مےں ہم پھنستے جا رہے ہےں۔ شاہ لطےف اور سچل سرمست کے زمانے مےں بھی اِسے حالات پےدا ہوئے تھے۔ لےکن ہمارے اور آپ کے ےہ شعراءاور صوفی خاموش تما شائی نہےں بنے۔ لےکن ڈٹ کر اس مذہب اور انسان دشمن تحرےک کا علمی، علمی اور ادبی محاذوں پر مقابلہ کےا اور مذہبی رواداری قائم کرنے مےں کامےاب ہوئے۔
مشکل اور کھٹن وقت تو ہر اےک قوم پر کبھی نا کبھی آتا ہے۔ جب سوسائٹی کے پلرس فقط اپنے آپ کو عقلِ کل، علم ودانش کے گہوارے سےاست مےں بے بدل اور مذہب کے ٹھےکےدار بن جاتے ہےں تو محبت اور نفرت کا توازن بگڑجاتا ہے۔ حقوق اور فرائض کو اپنی پسند کی تشرِع اور توضےع کی جاتی ہے اور اِسے حالات بدامنی، پھر بداحالی اور بعد مےں طوائف الملوکی کو جنم دےتے ہےں۔ ےہ مسائل پےدا ہوتے ہےں تو قلم ثابت کردےتا ہے کہ اس مےں تلوار سے زےادہ قوت ہے۔ ہماری تارےخ ےہ ہی بتاتی ہے۔