بابا فرید گنج شکر

Your browser may not support display of this image. بابا فرید گنج شکر کے سندھی دوھے

شیخ فرید گنج شکر پنجابی اور سرائکی زبانوں کے عظیم صوفی ہیں، بلکے یوں کہا جائے کے اس دور میں سندھی، پنجابی اور سرائکی کے امتزاج ان کے شاعری کے اندر نظر آتا ہے بابا فرید گنج کے زمانے میں سندھ میں سومرو خاندان کی حکومت تھی اس دؤر 1173ء 1275ء تک ہے اُس دور میں سندھ میں اُن کے ھمعصر شاعر پیر صدر الدین اور شمس سبزواری "ملتانی" رھے ہیں جس کا تعلق اسماعیلی سلسلے سے رہا ہے ان کے ھمعصروں میں شیخ بھاؤالدین ملتانی اور ٹھٹہ کے پیر پھٹو بھی شامل ہیں ۔ اُس وقت ملتان سندھ کا دارا لخلافہ تھا غوث بھاؤالحق کی زیارت کرنے کے لیئے اور دعا لینے کے لیئے سندھ سے اکثر اُن کے مرید پیادل ملتان جاتے تھے، اس زمانی میں ملتان کے اھمیت بہت بڑی تھی داراخلافہ کی کی حیثت میں اِس پورے خطے پر سندھی زبان کے بھی گھرے اثرات مرتبہ ہوئے ، اس لحاظ سے بابا فرید گنج شکر کے بھی کئی سندھی دوھے ملتے ہیں جن کو سندھی زبان کے نامور ادیب آغا سلیم نے دریافت کیا ہے ھرچند کے بابا فرید سندھی زبان کے اولین شاعر قاضی قادن، سے تین سئو سال پرانے شاعر ہیں لیکن بابا فرید کے دوہوں کی زبان بہت ہی صاف اور واضح ہے بابا فرید کے سندھی دوھے " آکیا بابا فرید" کے عنوان سے آغا سلیم نے کتاب کی شکل میں مرتب کیئے ہیں، یہ دوہوے سکھوں کے روحانی پیشوا کے فارسی تذکرہ میں بھی ملتے ہیں۔

فريدا درد نه وڃي دور، جي لک طبيبن لڳن،

چڱي ڀلي ٿي ڀايان، جي مون پرين ملن،

بابا فرید کی شاعری میں تصوف اخلاقی رنگ اور نصیحت آمیز مضامین موجود ہیں ان کے سندھی اشعار پر وہاں کے پنجابی اور سرائکی لھجے کا اثر غالب آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وادی سنھ کی زبان اسی طرح تھی جس کا عکس بابا فرید کی شاعری میں ملتا ہے

فريدا رتي رت نه نڪلي جي تن چيري ڪوءِ

جن تن رتا رب سين، تن تن، رت نه هوءِ

جنوب ایشیا میں تصوف کا سلسلہ وسطے ایشیا سے لیکر موجودہ افغانستان اور ایران کے صوفی بزرگوں کی آمد سے ہوا، جیسے سید علی ھجویری غزنی سے ھجرت کر کے لاھور آئے اور انہوں نے اِس شھر کو اپنا مستقل مسکن بنایا، انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ لاھور از مضافات ملتان است اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت ملتان کی اھمیت کیا تھی۔اُچ شریف ملتان، سیوھن شریف، بکھر اور ٹھٹہ صوفی بزرگوں کہ اھم مراکز سمجھے جاتے تھے اُس زمانے میں انسان دوستی اور وحدت انسانیت کے خیالات سندھی صوفی دانشوروں کے ذریعے مسلم دنیا کے صوفیانہ حلقوں تک پہنچے چکے تھے بو علی السندھی کا نام اس حوالے سے معروف ہے کہ انہوں نے بغداد کے صوفی حلقوں میں وحدت اللہ وجود کی تعلیم کو متعارف کروایا بعد میں ان خیالات کو محی الدین ابن عربی نے اسلامی اسطلاعات میں بیان کیا۔ ملتان کی شھرت کا یہ عالم تھا کہ شیخ فخرالدین عراقی ایک عرصی تک ملتان میں شیخ بھاؤالدین زکریا کے پاس رھئے تھے جہاں سے وہ "کونیا" جا پہنچے اور وہاں انہوں نے شیخ صدر الدین کونوی سے "فصوص الحکم"کا درس لیا۔ واضح رہئے کے سید علی ھجویر کی کتاب "کشف المحجوب" جنوبی ایشیا میں اسلامی تصوف پر لکھی جانے والی اولین کتاب ہے۔ بابا فرید الدین گنج شکر نے چشتیا روایت کو مزید نکھاریا ، انہوں نے اجودن میں ایک درسگاھ قائم کی اُس زمانے میں آج کی طرح تعلیمی ادارے تو نہ تھے البتہ عربی اور فارسی زبان میں لکھے گئے چند قلمی نسخے لوگوں کے گھروں میں تعلیم کا ذریعہ ہوتے تھے اور صرف صاحب ثروت اپنے اپنے مذھب کی عبادت گاہوں سے منسلک درسگاہوں میں اپنے اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے تھے۔ حضرت باب صاحب نے فرمایا کہ انسان کو علم اس لیئے حاصل کرنا چاہیئے کہ مخلوق خدا کو اُس سے فائدہ پہنچے نہ کے انسان کو نقصان پہنچانے کے لیئے ۔ اثر حاضر کے انسان نے اگر علم کو تباھی کے بجائے انسانیت کی بلاھی کے لیئے استعمال کیا ہوتا تو آج یہ تباھی دیکھنے میں نہ آتی اور انسانیت کی اتنی تتذلیل نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:آغانورمحمدپٹھان