اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد
اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخر زمان نے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے”پسِ زنداں ایوارڈ“ کے منصفین کے فیصلے کے مطابق ایوارڈ حاصل کرنے والوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لاءکے چاروں ادوار مےں لکھی جانے والی ہر دور کی اےک بہترےن کتاب پر اےوارڈ کااعلان کیا گیا تھا۔ منصفین کے فیصلے کے مطابق پسِ زنداں ادب کے حوالے سے لکھی جانے والی سب سے اہم ترین کتاب شہید ذوالفقار علی بھٹو کی”اگر مجھے قتل کیا گیا“ تھی ، منصفین نے خصوصی طور پر اس کتاب کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا ۔اس کے علاوہ سید یوسف رضا گیلانی کی کتا ب ” چاہ یوسف سے صدا“ مخدوم جاوید ہاشمی کی کتاب ” تختہ¿ دار کے سائے تلے “ طارق خورشید کی کتاب ” سوئے دار:کیا میں دہشت گرد تھا؟ “ حمید اختر کی کتاب ” کال کوٹھڑی “ اور ظفراللہ پوشنی کی کتاب ” زندگی زنداں دلی کا نام ہے “ کو ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے مارشل لاءکے چاروں ادوار،جنرل اےوب خان،جنرل ےحییٰ خان، جنر ل ضےاءالحق اور جنرل پروےز مشرف کے دورِ اقتدار مےں اسےران نے نہ صرف سےاسی جدوجہدکی بلکہ اسےری کے زمانے کو بھی قلمبند کیا۔ مارشل لاءکے زمانے کے چارادوارہیں،ان چاروں ادوار مےں اہل ِ قلم نے قلمی سطح پر بہت جدوجہد کی اور”پسِ زنداں ادب“ کے حوالے سے بہت سی کتابےں ےاداشتوں کے طور پر شائع ہوئیں۔ پاکستان مےں اس طرح کے ادب کو ابھی تک کوئی اہمیت نہےںدی گئی تھی۔”پسِ زنداں“ کے حوالے سے لکھی جانے والی کتابےں نہ صرف اہلِ علم بلکہ عام قاری مےں بھی بے حد مقبول ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ اسیر ادیبوں نے جیل میں رہتے ہوئے بھی حق کی آواز کو بلند کیا اور اسیری کے زمانے میں ڈکٹیٹرز اور مارشل لاءدور کے خلاف آواز بلند کی ۔اکادمی نے” پس زنداں ایوارڈ“ دینے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ایسے ادیب جنہوں نے اسیری کے زمانے میں بھی جدوجہد کی اُن کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ پس زنداں ایوارڈ دینے کے حوالے سے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس تقریب میں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری سے شرکت کی درخواست کی گئی ہے تا کہ وہ ”پس زنداں ایوارڈ“ حاصل کرنے والوں کوایوارڈ پیش کریں۔ انھوں نے کہا کہ جنرل ایوب کے دور میں نام نہاد سازش کیس ، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاءالحق کے ادوار کے مظالم اورپھر جنرل پرویزمشرف کے دورِ اقتدار میں اسیران نے جو کچھ لکھا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔ ان اہل قلم نے جیل میں جن مشکلات کا سامنا کیا وہ ان تحریروں میں عیاں ہے ۔ ان کی تحریروں سے مارشل لاءادوار میں کیے جانے والے مظالم کی ایک تاریخ سامنے آتی ہے ۔ اےوارڈ کے لےے کتابیں منتخب کرنے کے لےے سینئر اہل قلم پر مشتمل منصفین کی اےک کمےٹی تشکےل دی گئی تھی جس میںڈاکٹرمحمد علی صدیقی، پروفیسر خواجہ مسعود، ڈاکٹر مہدی حسن ، آئی اے رحمان، سراج الحق میمن، سلیم راز ،ڈاکٹر شاہ محمد مری ، الطاف احمد قریشی اور راحت سعید شامل تھے ،جنہوں نے ان بہترےن کتابوں کو اےوارڈ کے لےے منتخب کیا۔اس اےوارڈ کے تحت ہر کتاب پر انعامی رقم اےک لاکھ روپے ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخر زمان نے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے”پسِ زنداں ایوارڈ“ کے منصفین کے فیصلے کے مطابق ایوارڈ حاصل کرنے والوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لاءکے چاروں ادوار مےں لکھی جانے والی ہر دور کی اےک بہترےن کتاب پر اےوارڈ کااعلان کیا گیا تھا۔ منصفین کے فیصلے کے مطابق پسِ زنداں ادب کے حوالے سے لکھی جانے والی سب سے اہم ترین کتاب شہید ذوالفقار علی بھٹو کی”اگر مجھے قتل کیا گیا“ تھی ، منصفین نے خصوصی طور پر اس کتاب کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا ۔اس کے علاوہ سید یوسف رضا گیلانی کی کتا ب ” چاہ یوسف سے صدا“ مخدوم جاوید ہاشمی کی کتاب ” تختہ¿ دار کے سائے تلے “ طارق خورشید کی کتاب ” سوئے دار:کیا میں دہشت گرد تھا؟ “ حمید اختر کی کتاب ” کال کوٹھڑی “ اور ظفراللہ پوشنی کی کتاب ” زندگی زنداں دلی کا نام ہے “ کو ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے مارشل لاءکے چاروں ادوار،جنرل اےوب خان،جنرل ےحییٰ خان، جنر ل ضےاءالحق اور جنرل پروےز مشرف کے دورِ اقتدار مےں اسےران نے نہ صرف سےاسی جدوجہدکی بلکہ اسےری کے زمانے کو بھی قلمبند کیا۔ مارشل لاءکے زمانے کے چارادوارہیں،ان چاروں ادوار مےں اہل ِ قلم نے قلمی سطح پر بہت جدوجہد کی اور”پسِ زنداں ادب“ کے حوالے سے بہت سی کتابےں ےاداشتوں کے طور پر شائع ہوئیں۔ پاکستان مےں اس طرح کے ادب کو ابھی تک کوئی اہمیت نہےںدی گئی تھی۔”پسِ زنداں“ کے حوالے سے لکھی جانے والی کتابےں نہ صرف اہلِ علم بلکہ عام قاری مےں بھی بے حد مقبول ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ اسیر ادیبوں نے جیل میں رہتے ہوئے بھی حق کی آواز کو بلند کیا اور اسیری کے زمانے میں ڈکٹیٹرز اور مارشل لاءدور کے خلاف آواز بلند کی ۔اکادمی نے” پس زنداں ایوارڈ“ دینے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ایسے ادیب جنہوں نے اسیری کے زمانے میں بھی جدوجہد کی اُن کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ پس زنداں ایوارڈ دینے کے حوالے سے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس تقریب میں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری سے شرکت کی درخواست کی گئی ہے تا کہ وہ ”پس زنداں ایوارڈ“ حاصل کرنے والوں کوایوارڈ پیش کریں۔ انھوں نے کہا کہ جنرل ایوب کے دور میں نام نہاد سازش کیس ، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاءالحق کے ادوار کے مظالم اورپھر جنرل پرویزمشرف کے دورِ اقتدار میں اسیران نے جو کچھ لکھا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔ ان اہل قلم نے جیل میں جن مشکلات کا سامنا کیا وہ ان تحریروں میں عیاں ہے ۔ ان کی تحریروں سے مارشل لاءادوار میں کیے جانے والے مظالم کی ایک تاریخ سامنے آتی ہے ۔ اےوارڈ کے لےے کتابیں منتخب کرنے کے لےے سینئر اہل قلم پر مشتمل منصفین کی اےک کمےٹی تشکےل دی گئی تھی جس میںڈاکٹرمحمد علی صدیقی، پروفیسر خواجہ مسعود، ڈاکٹر مہدی حسن ، آئی اے رحمان، سراج الحق میمن، سلیم راز ،ڈاکٹر شاہ محمد مری ، الطاف احمد قریشی اور راحت سعید شامل تھے ،جنہوں نے ان بہترےن کتابوں کو اےوارڈ کے لےے منتخب کیا۔اس اےوارڈ کے تحت ہر کتاب پر انعامی رقم اےک لاکھ روپے ہے۔