پریس ریلیز
اکادمی ادبیات کے پروگرام ادبی اوطاق میں ممتاز شاعرہ نذیر ناز کے شاعری کے مجموعے "غزل چھو نہ چواں" کی پذیرائی۔
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا ماہانہ پروگرام ادبی نامور شاعر اور محقق پروفیسر آفاق صدیقی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ جبکہ این۔ ڈی جتوئی اور شمشیر الحیدری مہمانانِ خصوصی تھے. اس موقعے پر اردو اور سندھی کی نامور شاعرہ نذیر ناز کے شاعری کے مجموعے "غزل چہو نہ چواں" (غزل کیوں نہ کہوں) کی پذیرائی کی گئی۔ اس موقع پر اظھار خیال کرتے ہوئے پروفیسر آفاق صدیقی نے کہا کہ سندھ میں سندھی کے ساتھ اردو میں شاعری کا رجحان خوش آئیند ہے اور یہ قومی یکجھتی کی فضا کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ادبی اوطاق میں سندھی عورت کے مسائل اور دکھوں کو اپنی شاعری میں بڑی خوش اسلوبی سے سمویا ہے۔ممتاز شاعر اور نقاد شمشیر الحیدری نے کہا کہ نذیر ناز کی شاعری ایک گلدستہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کے رنگ اور خوشبو والے پھول سجے ہوئے ہیں۔ ممتاز شاعر جناب تاجل بیوس نے کہا کہ تغزل کی چاشنی کی وجہ سے نذیر ناز کی شاعری میں ایک نفاست اور نزاکت موجود ہے اور ان کے شاعرانہ تخیل میں ان کا مشاہدہ اور تجربہ وسیع نظر جھلکتا ہے۔ شاعرہ کے لاشعور میں وطن سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔جامعہ کراچی شعبہ سندھی کی پروفیسر ڈاکٹر خورشید عباسی نے کہا کہ نذیر ناز کی شاعری میں الفاظ مصنوعی طور سے پیوستہ نظر نہیں آتے لیکن ان کے خیالات ان کے اندر کی آواز ہے۔ وہ خود ایک خاتون ہیں اور سندھ کی خواتین کے مسائل سے بھرپور طرح سے آگاہی رکھتی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل کلچر حکومت سندھ این۔ ڈی جتوئی نے کہا کہ نذیر ناز کی اردو شاعری کی اھل زان نہ ہونے کے باوجود اھل زبان کی طرح ہے۔ جیسے ان کی اردو شاعری میں فصاحت اور بلاغت پائی جاتی ہے۔جناب نصیر سومرو نے کہا کہ کتاب مصنف کا آئینہ ہوتا ہے۔ جس میں وہ تشبیہات الفاظ، استعاروں کئنایوں اور محاوروں کے ذریعی اپنی کہانی بیان کرتا ہے اور بقول شاعر:
کس کی آواز کا عکس ہوں دل نے سوچہ بہت
آئینہ کچھ بتاتا نہیں میںنے پوچھا بہت
میں تو آئینہ کے موجد کو دعا دیتا ہوں
یہ بحر کو مری سامنے لاتا ہے۔
سندھی ادبی سنگت کے مرکزی سیکریٹری جنرل تاج جویو نے کہا کہ نذیر ناز صاحبہ ایک شاعرہ کے ساتھ ایک بہترین پبلشر بھی ہیں۔ اور انہوں نے چالیس سے زائد ادب پارے چھپوائے ہیں۔ اور سب سے آخر میں اپنی شاعری کا مجموعہ شایع کروایا ہے اورا نہوں نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شاعری کی ہے۔ جو ان کی شاعرانہ بلوغت کی علامت ہے۔زیب النساء زیبی اور افروز شورو نے نذیر ناز کی شخصیت اور شاعری پر مقالے پڑھے۔ پروگرام کے آخر میں عبدالجبار اثر، سعد الدین سعد محمد یامین اور حیات نظامی اور دیگر شعراء نے اپنا کلام پڑہ کر سنایا۔
جناب راشد نور
روزنامہ نوائے وقت کراچی
علی محمد جلبانی
پریس کوآرڈینیٹر
اکادمی ادبیات پاکستان
80-ای بلاک۔۲ پی ئی سی ایچ ایس کراچی
پریس ریلیز
زان پال سارتر کے ناول کے سندھی ترجم کی تقریب پذیرائی
اکادمی ادبیا ت پاکستان اور سندھ ریڈرز فورم کراچی کے زیراہتمام پروگرام ادبی اوطاق میں زان پال سارتر کی اولین ناول نازیہ کے سندھی ترجمے پر گفتگو کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت اردو زبان کے نامور شاعر اور دانشور مسلم شمیم نے کی جب کےمہمانان خصوصی سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری انعام شیخ، ڈاکٹر ذالفقار سیال سیکریٹری سندھی ادبی سنگت اور آمریکہ سے آئے ہوئے نامور قانون دان سید مہر حسین شاہ تھے۔اس موقعے پر نامور شاعر اور نقاد انور پیرزادو نے کہا کہ یہ ناول سارتر کا اولین ناول اور پہلا ادبی شاہکار ہے اس ناول کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں اور اب سندھی زبان میں بھی ڈاکٹر بدرنے یہ ترجمہ کر کے ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار سیال نے کہا کہ ڈاکٹر بدراجن سول بیروکریٹ ہوتےہوئے بھی گذشتہ چالیس سالوں سے ادب کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں اضلاع کے گزیٹیئر شایع کئے تھے آزادی کے پچاس سال بعد یہ پہلی کاوش ہے کہ ڈاکٹر بدارالدین نے گزیٹیئر کو ازسرنو نئے تازہ ترین مواد کے ساتھ شایع کروایا ۔ ممتاز ، نقاد اور "" ماھنامہ سوجھرو، کے مدیر تاج بلوچ نے کہا "" اندر جی اچھل "" زان پال سارتر کے ناول The Nauseaکا بہترین ترجم ہے جو بڑا مشکل کام تھا جو بدراجن نے کیا ہے۔انعام شیخ نے کہا کہ کسی کتاب کا ترجمہ اصل کتاب لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے وہ خود مترجم رہے ہیں اس لئے اس کو اندازہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس ترجمہ کو کس خوش اسلوبی سے سرانجام دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سندھی زبان میں انگریزی سے تراجم کا سلسلہ مزرا قلیچ بیگ نے شروع کیا تھا اورپیر حسام الدین راشدی نے فارسی سے تراجم کئے بھی اور کروائے بھی لیکن فرانسیسی ادب سے تراجم کا سلسلہ ابھی تک تشنہ طلب ہے اس سلسلے میں ڈاکٹر اجن نے خوش آئیند پیش قدمی کی ہے آمریکہ سے آئے ہوئے ممتاز قانون دان اور دانشور سید مہر حسین شاہ نے کہا کہ سندھی زبان میں بین الاقوامی ادب سے تراجم بہت ضروری ہیں اور آج کل تو انٹرنیٹ کے ذریعے یہ کام آسان ہوگیا ہے۔ سید غلام شاہ نے کہا سندھ کی خوشحالی اور ترقی کے لئے اہل علم و ادب کو اپنے حصہ کا کام کرنا چاہے، ڈاکٹر بدرنے ایک بیورو کریٹ ہونے کے باوجود اپنے ادبی ذوق کو متاثر ہونے نہیں دیا اور وہ اپنا علمی و ادبی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کتاب کے مترجم ڈاکٹر بدرالدین نے کہا کہ اس نے اپنی سرکاری مصروفیات سے کچھ وقت بچاکر اپنے تخلیقی کام کو جاری رکھا ہے کیونکہ ادب ہی میری شناخت ہے۔ اس لئے ادب کا فروغ مبری زندگی کامشن ہے۔ اس لئے ہم نے سندھ ریڈرس فورم قائم کیا۔ سندھ ریڈرس فورم کے سیکریٹری منصور قادر جونیجو نے کہاکہ ہمارے اہل ثروت کتاب خریدنے پر بہت کم خرچ کرتے ہیں اور انکی آرزو ہوتی ہے کہ مفت میں کتاب حاصل کی جائے اور پہلے ہمارے یہاں خاندانی لئبرریوں کا جو رواج تھا اسے دوبارہ بحال کیا جائے ۔ تقریب کے صدرمسلم شمیم نے مترجم کے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سندھی زبان اپنے ادبی ورثہ کے حوالےسے بہت شاہوکار زبان ہے اور وقت کی ضرورت ہے کہ سندھی زبان کی ترقی کے لئے اسے سرکاری اور قومی سطح پر فروغ دیا جائے ۔ انہوں نے دوسرے سرکاری اہلکاروں کو بھی ڈاکٹر بدرالدین اجن کےمثال کی تقلید کرنے کو کہا ۔اکادمی ادبیا ت پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے آخر میں آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا اکادمی ہمیشہ تمام اہل قلم کی بلا امتیاز خدمت کرنا اپنا فریضہ سمجھا ہے اور یہ کام اپنے محدود وسائل کے باوجود جاری رکھا جائیگا۔
آ غانور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
اکادمی ادبیات پاکستان
80-ای بلاک۔۲ پی ئی سی ایچ ایس کراچی
پریس ریلیز
"" سندھ کے صوفیائے کرام کے کلام میں امن کا پیغام "" کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد
اکادمی ادبیات پاکستان صوبہ سندھ اور خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کراچی کے اشتراک سے "سندھ کے صوفیائے کرام کے کلام میں امن کا پیغام" کی عنوان سے ایک علمی سیمینار خانہ فرہنگ جہموریہ اسلامی ایران کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ سندھ یونیورسٹی کے وا ئس چانسلر جناب مظہر الحق صدیقی نے اس سیمینار کی صدارت کی جبکہ ممتاز اسکالر ڈاکٹر عبدالغفار سومرو مھمان خصوصی تھے۔
اکادمی ادبیات پاکستان صوبہ سندھ کے ریزیڈنٹ ڈا ئریکٹر آغا نورمحمدپٹھان نے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ اسلام کا پیغام امن و مساوات سرزمین سندھ میں ۹۳ ہجری میں پہنچ چکا تھا اور یہاں قدیم ذات پات کے طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوا اور ہمارے صوفیائے سندھ میں وحدت انسانیت کا عالمگیر پیغام پہنچایا جس کی مثال آج بھی شاہ عبداللطیف بھٹا ئی ، سچل سرمست، صوفی شاہ عنایت اور اڈیرولعل کی خانقاہیں موجودہیں جہاں تمام مسالک اورمذاہب کے لوگ فیض حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پانچ ھزار سالہ پرانے آثار قدیمہ سے انسانی تہذیب کے جو آثار دریافت ہو ئے ہیں ان میں کو ئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا ۔ اس لئے یہ خطہ امن پسند اور محبت کا داعی رہا ہے۔خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کراچی کے ڈا ئریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد مہدی توسلی صاحب نے ایران کے معروف عرفانی شاعر"" حافظ شیرازی کےکلام پر قرآن مجیدکے اثرات"کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوںنے کہا کہ سندھ میںصوفی شعرا ئے کرام کے کلام کے جاودانی ہونےکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان شعراء نے اپنے اشعار میں قرآن سے رہنما ئی حاصل کی ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے وا ئس چانسلر جناب مظہر الحق صدیقی صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ سندھ کے صوفیا ئے کرام نے انسان کی عظمت اور انسان دوستی کو اپنے کلام کا مرکز بنایا اور ان عنوانات کی اہمیت کو قرآن مجید اور احادیث کے ذریعےاجاگر کیا ہے۔ اگر پورے سندھ کے شعرا ئےکرام کے کلام کا مطالعہ کیاجا ئے تو یہ سامنے آتا ہے کہ یہ سب صوفیا ئے کرام ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔سیمنار کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالغفار سومرو صاحب نے "شاہ عبدالکریم بلڑی کی شاعری پر مقالہ پیش کیا ۔ انہوں نے شاہ عبدالکریم بلڑی کی شاعری کے بارے میں بتایا کہ ان کا شاعری کا سرچشمہ قرآن مجید ہے ۔ انہوںنے شاہ عبدالکریم بلڑی کی شاعری پر قرآن پاک کے اثرات کے مختلف حوالے بھی پیش کیئے۔ معروف دانشور اور کالم نگار جناب ڈاکٹر معین قریشی صاحب نے " شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے کلام میں قرآن مجید کی جھلکیاں" کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے شاہ صاحب کے کلام میں قرآنی آیات کی جھلکیوں کے مختلف نمونے پیش کئے۔انہوں نے کہاکہ شاہ عبداللطیف بنیادی طور پر ایک صوفی شاعر ہیں ، چنانچہ ان کے کلام میں آیات قرآنی کی جھلکیاں موجود ہیں ۔ جناب ڈاکٹر بشیر احمد شاد نے "سچل سرمست کے کلام "میں آفاقیت" کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں سچل سرمست کی شخصیت اور ان کے پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیت با کمال اور ان کاپیغام آفاقی ہے۔ آپ ایک باعمل عالم دین اور حافظ قرآن تھے۔ آپکے کلام کے مرکزی موضوعات میں توحید ، وحدت الوجود، نفی اثبات، فناو بقاء خیرو شراور باطن و ظاہر و غیرہ شامل ہیں جناب ڈاکٹر عفان سلجوق نے سندھی ادبیات پر اسلامی ثقافت کے اثرات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھی ادبیات میں تا ثیر گذاری کے حوالے سے قرآن شریف کا بنیادی کردار رہا ہے۔ کم و بیش سندھ کے تمام صوفی شعراء کے کلام میں اسلام کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ برصغیر میں قرآن مجید کا پہلا فارسی ترجمہ بھی شاھ ولی اللہ دھلوی سے پہلے سندھ کی سرزمین میں انجام پایا تھا۔ ممتاز شاعر پروفیسر یعقوب "ثاقب" آریسر نے شھید عبدالرحیم گروھڑی کی شاعری اور ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے میوں شاہ عنایت رضوی کے کلام پر اپنے مقالے پڑھے۔
محترم جناب ڈاکٹر انیس الرحمن آ غانور محمد پٹھان
انچارج ادبی صفحہ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
روزنامہ کلیم سکھر
اکادمی ادبیات پاکستان
80-ای بلاک۔۲ پی ئی سی ایچ ایس کراچی
پریس ریلیز
"" سندھ کے صوفیائے کرام کے کلام میں امن کا پیغام "" کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد
اکادمی ادبیات پاکستان صوبہ سندھ اور خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کراچی کے اشتراک سے "سندھ کے صوفیائے کرام کے کلام میں امن کا پیغام" کی عنوان سے ایک علمی سیمینار خانہ فرہنگ جہموریہ اسلامی ایران کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ سندھ یونیورسٹی کے وا ئس چانسلر جناب مظہر الحق صدیقی نے اس سیمینار کی صدارت کی جبکہ ممتاز اسکالر ڈاکٹر عبدالغفار سومرو مھمان خصوصی تھے۔
اکادمی ادبیات پاکستان صوبہ سندھ کے ریزیڈنٹ ڈا ئریکٹر آغا نورمحمدپٹھان نے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ اسلام کا پیغام امن و مساوات سرزمین سندھ میں ۹۳ ہجری میں پہنچ چکا تھا اور یہاں قدیم ذات پات کے طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوا اور ہمارے صوفیائے سندھ میں وحدت انسانیت کا عالمگیر پیغام پہنچایا جس کی مثال آج بھی شاہ عبداللطیف بھٹا ئی ، سچل سرمست، صوفی شاہ عنایت اور اڈیرولعل کی خانقاہیں موجودہیں جہاں تمام مسالک اورمذاہب کے لوگ فیض حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پانچ ھزار سالہ پرانے آثار قدیمہ سے انسانی تہذیب کے جو آثار دریافت ہو ئے ہیں ان میں کو ئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا ۔ اس لئے یہ خطہ امن پسند اور محبت کا داعی رہا ہے۔خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کراچی کے ڈا ئریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد مہدی توسلی صاحب نے ایران کے معروف عرفانی شاعر"" حافظ شیرازی کےکلام پر قرآن مجیدکے اثرات"کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوںنے کہا کہ سندھ میںصوفی شعرا ئے کرام کے کلام کے جاودانی ہونےکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان شعراء نے اپنے اشعار میں قرآن سے رہنما ئی حاصل کی ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے وا ئس چانسلر جناب مظہر الحق صدیقی صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ سندھ کے صوفیا ئے کرام نے انسان کی عظمت اور انسان دوستی کو اپنے کلام کا مرکز بنایا اور ان عنوانات کی اہمیت کو قرآن مجید اور احادیث کے ذریعےاجاگر کیا ہے۔ اگر پورے سندھ کے شعرا ئےکرام کے کلام کا مطالعہ کیاجا ئے تو یہ سامنے آتا ہے کہ یہ سب صوفیا ئے کرام ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔سیمنار کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالغفار سومرو صاحب نے "شاہ عبدالکریم بلڑی کی شاعری پر مقالہ پیش کیا ۔ انہوں نے شاہ عبدالکریم بلڑی کی شاعری کے بارے میں بتایا کہ ان کا شاعری کا سرچشمہ قرآن مجید ہے ۔ انہوںنے شاہ عبدالکریم بلڑی کی شاعری پر قرآن پاک کے اثرات کے مختلف حوالے بھی پیش کیئے۔ معروف دانشور اور کالم نگار جناب ڈاکٹر معین قریشی صاحب نے " شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے کلام میں قرآن مجید کی جھلکیاں" کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے شاہ صاحب کے کلام میں قرآنی آیات کی جھلکیوں کے مختلف نمونے پیش کئے۔انہوں نے کہاکہ شاہ عبداللطیف بنیادی طور پر ایک صوفی شاعر ہیں ، چنانچہ ان کے کلام میں آیات قرآنی کی جھلکیاں موجود ہیں ۔ جناب ڈاکٹر بشیر احمد شاد نے "سچل سرمست کے کلام "میں آفاقیت" کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں سچل سرمست کی شخصیت اور ان کے پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیت با کمال اور ان کاپیغام آفاقی ہے۔ آپ ایک باعمل عالم دین اور حافظ قرآن تھے۔ آپکے کلام کے مرکزی موضوعات میں توحید ، وحدت الوجود، نفی اثبات، فناو بقاء خیرو شراور باطن و ظاہر و غیرہ شامل ہیں جناب ڈاکٹر عفان سلجوق نے سندھی ادبیات پر اسلامی ثقافت کے اثرات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھی ادبیات میں تا ثیر گذاری کے حوالے سے قرآن شریف کا بنیادی کردار رہا ہے۔ کم و بیش سندھ کے تمام صوفی شعراء کے کلام میں اسلام کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ برصغیر میں قرآن مجید کا پہلا فارسی ترجمہ بھی شاھ ولی اللہ دھلوی سے پہلے سندھ کی سرزمین میں انجام پایا تھا۔ ممتاز شاعر پروفیسر یعقوب "ثاقب" آریسر نے شھید عبدالرحیم گروھڑی کی شاعری اور ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے میوں شاہ عنایت رضوی کے کلام پر اپنے مقالے پڑھے۔
محترم جناب رحمن بونیری آ غانور محمد پٹھان
ایڈیٹر ہفتہ روزہ روشن پاکستان ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
کراچی
اکادمی ادبیات پاکستان
80-ای بلاک۔۲ پی ئی سی ایچ ایس کراچی
پریس ریلیز
حسین انجم کی وفات پر اظہار تعزیت
اکادمی ادبیا ت پاکستان کے چئیرمن افتخار عارف نے معروف شاعر، نقاد صحافی حسین انجم مرحوم کے انتقال پر دلی صدمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مرحوم حسین انجم ایک اصول ادیب اور دانشور صحافی تھے انہوں نے طلوع افکار کے ذریعے اہل قلم کی بڑی پذیرائی کی اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نورمحمد پٹھان نے اپنے دفتر میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا اور مرحوم کی ادبی، صحافتی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کی آخر میں مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی گئی
محترم جناب نیوز ایڈیٹر
آ غانور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
B R I D G E
69-C, BLOCK-2, FIRIST FLOOR , P.E.C.H.S
OFF
PH: 4535912, FAX:2257981
پریس ریلیز
ایڈز سے متاثر ہ افراد کے لئے معلوماتی کتابچہ "امید صحت " کی اشاعت
ایڈز کامرض پوری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس وقت دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں رہا جہاں پر "ایچ آئی وی /ایڈز"( HIV/AIDS) سے متاثر افراد موجود نہ ہوں ۔ یہ مرض عام امراض سے قدرے مختلف ہے جس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً ایڈز کے مرض کی علامات ایچ آئی وی وائرس (HIV) کے جسم میں داخل ہونے کے فوراً شروع نہیں ہوتیں بلکہ علامات ظاہر ہونےمیں تقریباً ۸ سے ۱۲ سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے ۔ اس دوران متاثرہ شخص نہ صرف سحت مند دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ لا علمی میں یہ مرض دوسروں تک منتقل کرتا رہتا ہے یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث یہ مرض پوری دنیا میں کافی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عام طور پر اس مرض کا شکار عموماً ۲۰ سے ۴۰ سال کی عمر کے لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی گھرانے اور ملک کے اہم رکن ہوتے ہیں کیونکہ ان پر گھر کے معاشی حالات کا کافی انحصار ہوتا ہے اور ایسے افراد کا اس بیماری میں متبلا ہوجانا یا انتقال کر جانا گھر اور ملک دونوں کےمعاشی اور معاشرتی حالات پر کافی برا اثر ڈالتا ہے۔امید افزابات یہ ہے کہ اس مرض کے مہلک ہونے کے باوجود اس سے محفوظ رہنا ممکن ہے اور اس سے بچنے کا بہترین ذریعہ مکمل معلومات اور احتیاط ہے۔ صرف معلومات کا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی روز مرہ زندگی کے طور طریقوں اور چال چلن میں تبدیلی لانا بھی بہت ضروری ہے تب ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ اس بیماری کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے اور متاثرہ افراد اپنی زندگی بہتر طریقے سے گزار سکیں۔ اس کتابچے کا مقصد ایچ آئی وی / ایڈز (HIV/AIDS) سے متاثرہ افراد تک اس بیماری کے متعلق تمام اہم بنیادی معلومات اس طرح پہنچانا ہے کہوہ نہ صرف ایڈز کے مرض کی مکمل سوجھ بوجھ کرسکیں بلکہ اس کتابچے میں دی گئی ہدایات پر عمل کرکے اپنی قیمتی زندگی کو صحیح و صحت مند طریقےسے گزار سکیں اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی زندگیوں کو بھی اس مرض سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔ اس کتابچے میں ایچ آئی وی /ایڈز سے متاثرہ افراد کی تمام بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہ صرف اس بیماری اور اس کے علاج کے متعلق تمام معلومات ایک جامع اور عام فہم انداز میں فراہم کی گئی ہیں بلکہ ایچ آئی وی /ایڈز کےماہر معالج ، اسکے علاج کے مراکز اور مشاورتی مراکز کے علاوہ اس بیماری کی روک تھام میں حکومت کی معاونت کرنے والے تمام علامی اداروں کے پتے بھی شامل ہیں تاکہ متاثرہ فراد بوقت ضرورت بغیر کسی مشکل کے ان سہولیات سے فائدہ اٹھاسکیں۔ اس کتابچے سے نہ صرف ایچ آئی وی /ایڈز (HIV/AIDS) کے مریض بذات خود مستفید ہوسکتے ہیں اور اپنا معیار زندگی بہتر بناسکتے ہیں بلکہ مریض کے دوست احباب ، عزیز رشتہ دار بھی اس سے استفادہ حاصل کرکے اس مرض کی روک تھام اور مریض کی دیکھ بھال میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کتابچہ ایچ آئی وی /ایڈز سے متاثرہ افراد کے لئے ہر لحاظ سے بہت مدد گار ثابت ہوگا۔ یہ کتابچہ پبلک ہیلتھ کے میدان میں تحقیق کے حوالے سے بڑی شہرت کے حامل ادارہ برج BRIDGE نے شایع کیا ہےکتاب کا نام "امید صحت " مصنفین پروفیسر ڈاکٹر شرف علی شاہ اور ڈاکٹر شگفتہ پروین ہیں یہ کتاب تعلیمی یا معلوماتی مقصد کے لئے مندرجہ ذیل پتے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
BRIDGE
69-C, BLOCK-2, FIRIST FLOOR , P.E.C.H.S
OFF
PH: 4535912, FAX:2257981
E-mail:bridgeresearch@hotmail.com. Website:www.bridgeresearch.org.pk
کے ۔کے ڈھراج
جناب شفقت سومرو پریس کوآرڈینٹر
پریس ریلیز
ایس ایچ ہاشمی مرحوم کے لئے فاران کلب انٹرنیشنل کی طرف سے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد
کراچی (پ۔ر) فاران کلب انٹر نیشنل کے زیر اہتمام ملک کے نامور دانشور ، سماجی شخصیت اور اشتہارات کی صنعت کےمعمار ایس ۔ ایچ ہاشمی مرحوم کی یاد میں ایک تعزیتی تقریب منعقد کی جارہی ہے ۔ جس کی صدارت سابق اسپیکر قومی اسمبلی محترم الہی بخش سومرو کریں گے۔ جبکہ وفاقی وزیرجناب محمود علی اورہاشمی صاحب کے صاحبزادے جناب محمود ہاشمی خصوصی خطاب فرمائیں گے۔اس کے علاوہ تقریب میںادب، صحافت اور تعلیم کے شعبہ سے تعلق رکھنےوالی نمائندہ شخصیات بھی خطاب فرمائیں گی۔ یہ تقریب ۲۹ اپریل بروز ہفتہ بعد نماز مغرب ٹھیک ساڑھے ساتھ بجے فاران کلب کے آڈیٹوریم گلشن اقبال بلاک۔ 17 بلمقابل سوئی سدرن گیس میں منعقد ہوگی۔
آپ سےاس پروگرام میں شریک ہونےاور خصوصی کوریج کی درخواست ہے۔
محترم جناب چیف ایڈیٹر
محترم جناب نیوز ایڈیٹر محمد نعمان صدیقی
محترم جناب چیف فوٹو گرافر میڈیا کورآرڈینیٹر
موبائل 0321-2055409
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
شاعری کے ذریعے سماجی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ شاہد ہ حسن
دنیا بھر میں تخلیق کیا جانے والا ادب انسانیت کا درس دیتاہے ۔ؕآغانور محمد پٹھان
کراچی (اسٹاف رپورٹر) ادب کو سماج سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ ادب زندگی گذارنے کے سلیقے سکھا تا ہے اور ھمارے شعور کو بیدار کرکے علم و آگہی کے چراغ روشن کرتا ہے۔ دنیا بھر میں تخلیق کیا جانے والا ادب انسانیت کا درس دیتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے معذور بچوں کے ادارے بلخی میموریل فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ تقریب میں اپنے صدارتی خطبے میں کیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ محبت ہی ایسا جذبہ ہے جو انسان کا انسان سے رشتہ جوڑتا ہے ہمیں ان خصوصی بچوں سے محبت کرنا چاہئیے اور ان کی خوشیوں کا خاص خیال رکھنا چائیے ۔ مہمان خصوصی ممتاز شاعرہ شاہدہ حسن نے کہا کہ شاعری کے ذریعے سماجی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ۔ کئی اشعار ایسے ہیں جنہوں نے انسانوں کی زندگیوں کو بدل دیا ہے۔ شاعری دل کی زبان ہے۔ اہل قلم نے ہمیشہ دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام انجام دیا ہے۔ خصوصی افراد میں بے پناہ صلاحتیں ہوتی ہیں ھماری تھوڑی سی توجہ ان کی زندگی میں رنگ لاسکتی ہے سماجی رہنما محمد حنیف کہا کہ آج کے زمانے میں جتنا ممکمن ہوسکے انسان دوسروں کے کام آئے کیوں کہ معاشرے میں عجیب اتفراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ڈاکٹر ایس آئی خان نے کہا کہ میری زندگی کا مقصد خصوصی افراد کی دل جوئی کرنا ہے ۔ تقریب سے معروف شاعرہ آمنہ عالم، پروفیسر خیال آفاقی، سراج الدین ، عبید مغل ، منتہا یوسف اور آمنہ خان نے بھی خطاب کیا تقریب کے اختتام پر تمام مہمانوں میں تحائف تقسیم کئے گئے۔
جناب سعید خاور
ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت کراچی پریس سیکریٹری
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
شاعری کے ذریعے سماجی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ شاہد ہ حسن
دنیا بھر میں تخلیق کیا جانے والا ادب انسانیت کا درس دیتاہے ۔ؕآغانور محمد پٹھان
کراچی (اسٹاف رپورٹر) ادب کو سماج سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ ادب زندگی گذارنے کے سلیقے سکھا تا ہے اور ھمارے شعور کو بیدار کرکے علم و آگہی کے چراغ روشن کرتا ہے۔ دنیا بھر میں تخلیق کیا جانے والا ادب انسانیت کا درس دیتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے معذور بچوں کے ادارے بلخی میموریل فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ تقریب میں اپنے صدارتی خطبے میں کیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ محبت ہی ایسا جذبہ ہے جو انسان کا انسان سے رشتہ جوڑتا ہے ہمیں ان خصوصی بچوں سے محبت کرنا چاہئیے اور ان کی خوشیوں کا خاص خیال رکھنا چائیے ۔ مہمان خصوصی ممتاز شاعرہ شاہدہ حسن نے کہا کہ شاعری کے ذریعے سماجی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ۔ کئی اشعار ایسے ہیں جنہوں نے انسانوں کی زندگیوں کو بدل دیا ہے۔ شاعری دل کی زبان ہے۔ اہل قلم نے ہمیشہ دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام انجام دیا ہے۔ خصوصی افراد میں بے پناہ صلاحتیں ہوتی ہیں ھماری تھوڑی سی توجہ ان کی زندگی میں رنگ لاسکتی ہے سماجی رہنما محمد حنیف کہا کہ آج کے زمانے میں جتنا ممکمن ہوسکے انسان دوسروں کے کام آئے کیوں کہ معاشرے میں عجیب اتفراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ڈاکٹر ایس آئی خان نے کہا کہ میری زندگی کا مقصد خصوصی افراد کی دل جوئی کرنا ہے ۔ تقریب سے معروف شاعرہ آمنہ عالم، پروفیسر خیال آفاقی، سراج الدین ، عبید مغل ، منتہا یوسف اور آمنہ خان نے بھی خطاب کیا تقریب کے اختتام پر تمام مہمانوں میں تحائف تقسیم کئے گئے۔
جناب ابراربختیار
نیوز ایڈیٹر روزنامہ ایکسپریس کراچی پریس سیکریٹری
اکادمی ادبیات پاکستان
80-ای بلاک۔۲ پی ئی سی ایچ ایس کراچی
معروف شاعر اور اردو کے استاد پروفیسر غفار شاد کی وفات پر اظہار تعزیت
(کراچی پ۔ر) اکادمی ادبیا ت پاکستان کے چئیرمن افتخار عارف نے معروف شاعر، نقاد پروفیسر غفار شاد کے انتقال پر دلی صدمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مرحوم پروفیسر غفار شاد ایک بااصول اورمحنتی استاد انکی محنتی ادیب اور بہترین شاعر کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔ اچانک حادثاتی موت نے کراچی بالخصوص علمی و ادبی حلقے کو شدید افسردہ کردیا ہے ۔ انہوں نے مرحوم کی مغفرت اور درجات کی بلندی اور اہل خانہ اور احباب کو صبر جمیل عطا کرنے کے لئے خداوند کریم سے دعا کی ۔ اس موقعے پر اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نورمحمد پٹھان نے اپنے دفتر میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا اور کہا کہ محترم غفار شاد اکادمی ادبیات کے مستقل مربئین میں شامل تھے وہ اکادمی کے اکثر تقریبات میں شریک ہوتے تھے ان کے مقالے اور مضامین بڑے شوق سے سنے جاتے تھے۔ انہوں نے مرحوم کی ادبی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا اور آخر میں مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔
مخلص
آ غانور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
کاپی برائے اطلاع
جناب افتخار عارف
چئیرمن
اکادمی ادبیات پاکستان
اسلام آباد
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
پریس ریلیز
شش ماہی السیرہ کے نائب مدیر اور ماہنامہ تعمیر افکار کے مدیر سید عزیز الرحمن کی نئی تالیف "درس سیرت " شائع ہوگئی ہے جس میں مطالعہ سیرت ایک نئی جہت سے پیش کیاگیا ہے اور سیرت طیبہ کےدعوتی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب میں سیرت طیبہ کی اخلاقی تعلیمات کو پچاس عنوانات کے تحت پیش کیا گیا ہے، کتاب مقدمہ معروف اسکالر اور عالم دین مولانا محمد زاہد راشدی نے تحریر کیا ہے۔ جبکہ پیش لفظ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے تحریر کیا ہے۔ کتبا کا تعارف معروف دانشور اور مھقق ڈاکٹر ابولخیر کشفی نے تحریر کیا ہے۔ کتاب خوبصورت سرورق ، عمرہ طباعت اور معیاری پیش کش کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔
آغا نورمحمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
پریس ریلیز
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام اہل قلم ڈائریکٹری کی تیاریاں
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام پاکستان بھر کے اہل قلم کی ایک ڈائریکٹری اشاعت کےمراحل میں ہے اس سلسلے میں تمام اہل قلم کو گذارش ہے کہ اس سلسلے میں وہ اپنے کوائف اکادمی اکادمی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نورمحمدپٹھان کودفتراکادمی ادبیات پاکستان ۸۰۔ای بلاک۔۲ پی ئی سی ایچ ایس کراچی کے پتے پر فوری طور پر ارسال کریں ہے تاکہ ان کے اسمائے گرامی بھی اس ڈائریکٹری میں شامل کئے جاسکیں اس کے علاوہ یہ کوائف aghanoorM1@yahoo.com پر E-mail بھی کئے جاسکتے ہیں۔
آغا نورمحمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
پریس ریلیز
دنیائے ادب کی عہد ساز شخصیت، ممتاز شاعر ، مایہ ناز افسانہ نگار ، مستندو معتبر مدیر، صاحب اسلوب کالم نگار اورمجلس ترقی ادب کے نگران احمد ندیم قاسمی کے انتقال پر اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمن افتخار عارف گہرے دک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احمد ندیم قاسمی کا رخصت ہونا پاکستان قوم کا بھت بڑا نقصان ہوا ہے۔ پاکستانی عوام دنیائے ادب کی عہد ساز شخصیت بہت بڑے افسانہ نگار، اور بہت بڑے مدیر سے محروم ہوگیاہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے عہد میں بہت کم لوگ ہوں گے جنہوں نے قاسمی صاحب جیسی فعال زندگی گزاری ہو۔ وہ ایک کثیر الجہات شخصیت، تھے۔ ان کی رحلت ایک ادبی رہنمااور ایک بہت بڑےلکھنے والے کار خصت ہونا ہے کہ جنہوں نے ادیبوں کی کئی نسلوں کو احسان مند کیا ۔ ان کا تخلیقی سرمایہ شاعری، افسانہ، تنقید، کالموں اور فنون کی صورت میں اردو ادب کو ثروت مند بناتا رہا ہے ان کی 50 سے زائد کتب اردو ادب کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کو ملک کے اعلیٰ ترین اعزازات نشان امتیاز ، ستارہء امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ یہ اعزازات کسی بھی شخصیت کے لیے باعث افتخار ہوسکتے ہیں ۔ لیکن یہ اعزازات قاسمی صاحب کی وجہ سے معتبر ہوگئے ہیں قاسمی صاحب کو اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 1997 میں کمال فن ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے عہد کی سب سے بڑی ادبی شخصیت تھے۔ ان کارخصت ہونا ہمارے لیے قومی ادبی سانحہ ہے۔ اکادمی ادبیا ت پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل محمد انور خان اور دیگر افسران ڈاکٹر راشد حمید، نگہت سلیم ، عاصم بٹ، سعیدہ درانی، علی یاسر، خرم خرام اور اختررضا سلیمی نے بھی دلی تعزیت کا اظہار کیا۔ اور ریزیڈنٹ ڈائریکٹر سندھ آغا نور محمد پٹھان نے اس سلسلے میں اکادمی ادبیات پاکستان سندھ برانچ کے زیر اہتمام محترم احمد ندیم قاسمی کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس بروز بدھ 12 جولائی 2006 ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی صدارت میں سٹی آفیسرز کلب کشمیر روڈ پر منعقد کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
جناب نیوز ایڈیٹر کے ۔ کے ڈھراج
پریس کوارڈینٹر
اڪادمي ادبيات پاڪستان
Ministry of Education Government of
پريس ريليز
اڪادمي ادبيات پاڪستان ڪمال فن ايوارڊ سن 2005 ۽ قومي ادبي ايوارڊ سن 2005 جو اعلان ڪيو آهي. ملڪ جي ممتاز اسڪالر ۽ دانشور ڊاڪٽر نبي بخش خان بلوچ کي ڪمال فن ايوارڊ لاءِ چونڊيو آهي . هن ڳالهه جو فيصلو پاڪستان جي معتبر ۽ مستند دانشورن تي ٻڌل منصفين جي پينل ڪيو آهي. جنهن ۾ مظهر الحق صديقي ، ڊاڪٽر فرمان فتح پوري ، پروفيسر فتح محمد ملڪ اياز داود زئي، محمد ايوب بلود زئي ، ڊاڪٽر رياض مجيد، زيتون بانو، نثار عزيز بٽ ۽ محمد ايوب بلوچ شامل هيا اجلاس جي صدارت مظهرالحق صديقي جن ڪمال فن ايوارڊ هرسال ڪنهن به هڪ پاڪستاني اهل قلم کي زندگي ڀر جي ادبي خدمتن جي اعتراف جي طور تي ڏنو ويندو آهي . هي ايوارڊ ملڪ جو سڀ کان وڏو ادبي ايوارڊ آهي، جنهن جي شروعات اڪادمي ادبيات پاڪستان 1997 ۾ ڪئي هئي. هن ايوارڊ سان گڏ پنج لک روپيه نقد به پيش ڪيا ويندا آهن هيل تائين اڪادمي ادبيات پاڪستان جي طرفان احمد نديم قاسمي (مرحوم) انتظار حسين ، مشتاق احمد يوسفي ،احمد فراز ، شوڪت حسين صديقي، منير نيازي ، ادا جعفري ۽ سوڀوگيان چنداني کي ڪمال فن ايوارڊ ڏنا ويا آهن ان کان علاوہ قومي ادبي ايوارڊ سال 2005 ڏيڻ جو اعلان چئيرمن اڪادمي اديبات پاڪستان افتخار عارف هڪ خصوصي پريس ڪانفرنس ۾ ڪيو، هي انعام اردو، پنجابي ، سنڌي ، پشتو ، بلوچي ، سرائيڪي، براهوي ۽ انگريزي ٻولي ۾ ڇپيل بهترين ڪتابن تي ڏنا ويندا آهن ، اردو نظم جي لاءِ ڊاڪٽر علامه محمد اقبال ايوارڊ شهزاد احمد جي ڪتاب آنے والا ڪل کي ڏنو ويو جنهن جا جج آفتاب شميم ، ڊاڪٽر سليم اختر ۽ ڊاڪٽر روبينه ترين جن هئا. اردو نثر جي لاءِ بابائي اردو ڊاڪٽر مولوي عبدالحق ايوارڊ ، ڊاڪٽر محمد اسلم فرخي جي ڪتاب لال سبز ڪبوترن جي ڇتري کي ڏنو ويو جنهن جا منصفين انتظار حسين ڊاڪٽر انور سديد ۽ زاهده حنا جن هئا پنجابي ٻولي جي لاءِ سيد وارث شاهه ايوارڊ مير تنها يوسفي جي ڪتاب ڪالا چانن کي ڏنو ويو جنهن جا منصفين شفقت تنوير مرزا ڊاڪٽر شهباز ملڪ فرخنده لودهي جن هئا. سنڌي ٻولي لاءِ شاهه عبداللطيف ڀٽائي ايوارڊ محمد حسين ڪاشف جي ڪتاب لطيفي فڪر ۽ سرن جي ساڃاهه کي ڏنو ويو آهي جنهن جا منصفين حميد سنڌي، ڊاڪٽر غلام علي الانا ۽ امداد حسيني جن هئا. پشتو ٻولي جي لاءِ خوشحال خان خٽڪ ايوارڊ رحمت الله درد جي ڪتاب درد کي ڏنو ويو جنهن جا منصفين اياز دائود زئي ، زيتون بانو ۽ عبدالڪريم بريالي جن هئا . بلوچي ٻولي لاءِ مست توڪلي ايوارڊ ظفر علي ظفر جي ڪتاب ” دزوت“ کي ڏنو ويو آهي جنهن جا منصفين محمد بيگ بلوچ ڊاڪٽر نعمت الله گچڪي ۽ محمد ايوب بلوچ جن هئا سرائيڪي ٻوليءَ لاءِ خواجه غلام فريد ايوارڊ رفعت عباس جي ڪتاب عشق الله سائين جاڳيا کي ڏنو ويو آهي جنهن جا منصفين ڊاڪٽر اسلم انصاري، ڊاڪٽر انور احمد ۽ اسلم رسولپوري جن هئا. بروهي ٻولي لاءِ تاج محمد تاجل ايوارڊ افضل مينگل جي ڪتاب شيشلو کي ڏنو ويو جنهن جي منصفين جسٽس (ر) امير الملڪ مينگل ، مير صلاح الدين مينگل ۽ ڊاڪٽر عبدالرحمن بروهي جن شامل هئا. انگريزي ٻولي لاءِ پطرس بخاري ايوارڊ ڪامله شمسي جي ڪتاب Broken verses کي ڏنو ويو آهي جنهن جا منصفين ڊاڪٽر محمد علي صديقي مشير، انور علي ڊاڪٽر سعيده اسد الله جن هئا هنن ڪتابن تي قومي ادبي ايوارڊ ماڻيندڙ سڀني منصفين کي پنجاهه پنجاهه هزار روپيا پڻ ڏنا ويندا.
جناب ضاءَ قريشي آغا نور محمد پٺاڻ
روزاني عبرت ريزيڊنٽ ڊائريڪٽر
اڪادمي ادبيات پاڪستان
Ministry of Education Government of
پريس ريليز
اڪادمي ادبيات پاڪستان ڪمال فن ايوارڊ سن 2005 ۽ قومي ادبي ايوارڊ سن 2005 جو اعلان ڪيو آهي. ملڪ جي ممتاز اسڪالر ۽ دانشور ڊاڪٽر نبي بخش خان بلوچ کي ڪمال فن ايوارڊ لاءِ چونڊيو آهي . هن ڳالهه جو فيصلو پاڪستان جي معتبر ۽ مستند دانشورن تي ٻڌل منصفين جي پينل ڪيو آهي. جنهن ۾ مظهر الحق صديقي ، ڊاڪٽر فرمان فتح پوري ، پروفيسر فتح محمد ملڪ اياز داود زئي، محمد ايوب بلود زئي ، ڊاڪٽر رياض مجيد، زيتون بانو، نثار عزيز بٽ ۽ محمد ايوب بلوچ شامل هيا اجلاس جي صدارت مظهرالحق صديقي جن ڪمال فن ايوارڊ هرسال ڪنهن به هڪ پاڪستاني اهل قلم کي زندگي ڀر جي ادبي خدمتن جي اعتراف جي طور تي ڏنو ويندو آهي . هي ايوارڊ ملڪ جو سڀ کان وڏو ادبي ايوارڊ آهي، جنهن جي شروعات اڪادمي ادبيات پاڪستان 1997 ۾ ڪئي هئي. هن ايوارڊ سان گڏ پنج لک روپيه نقد به پيش ڪيا ويندا آهن هيل تائين اڪادمي ادبيات پاڪستان جي طرفان احمد نديم قاسمي (مرحوم) انتظار حسين ، مشتاق احمد يوسفي ،احمد فراز ، شوڪت حسين صديقي، منير نيازي ، ادا جعفري ۽ سوڀوگيان چنداني کي ڪمال فن ايوارڊ ڏنا ويا آهن ان کان علاوہ قومي ادبي ايوارڊ سال 2005 ڏيڻ جو اعلان چئيرمن اڪادمي اديبات پاڪستان افتخار عارف هڪ خصوصي پريس ڪانفرنس ۾ ڪيو، هي انعام اردو، پنجابي ، سنڌي ، پشتو ، بلوچي ، سرائيڪي، براهوي ۽ انگريزي ٻولي ۾ ڇپيل بهترين ڪتابن تي ڏنا ويندا آهن ، اردو نظم جي لاءِ ڊاڪٽر علامه محمد اقبال ايوارڊ شهزاد احمد جي ڪتاب آنے والا ڪل کي ڏنو ويو جنهن جا جج آفتاب شميم ، ڊاڪٽر سليم اختر ۽ ڊاڪٽر روبينه ترين جن هئا. اردو نثر جي لاءِ بابائي اردو ڊاڪٽر مولوي عبدالحق ايوارڊ ، ڊاڪٽر محمد اسلم فرخي جي ڪتاب لال سبز ڪبوترن جي ڇتري کي ڏنو ويو جنهن جا منصفين انتظار حسين ڊاڪٽر انور سديد ۽ زاهده حنا جن هئا پنجابي ٻولي جي لاءِ سيد وارث شاهه ايوارڊ مير تنها يوسفي جي ڪتاب ڪالا چانن کي ڏنو ويو جنهن جا منصفين شفقت تنوير مرزا ڊاڪٽر شهباز ملڪ فرخنده لودهي جن هئا. سنڌي ٻولي لاءِ شاهه عبداللطيف ڀٽائي ايوارڊ محمد حسين ڪاشف جي ڪتاب لطيفي فڪر ۽ سرن جي ساڃاهه کي ڏنو ويو آهي جنهن جا منصفين حميد سنڌي، ڊاڪٽر غلام علي الانا ۽ امداد حسيني جن هئا. پشتو ٻولي جي لاءِ خوشحال خان خٽڪ ايوارڊ رحمت الله درد جي ڪتاب درد کي ڏنو ويو جنهن جا منصفين اياز دائود زئي ، زيتون بانو ۽ عبدالڪريم بريالي جن هئا . بلوچي ٻولي لاءِ مست توڪلي ايوارڊ ظفر علي ظفر جي ڪتاب ”همبوئن دزوت“ کي ڏنو ويو آهي جنهن جا منصفين محمد بيگ بلوچ ڊاڪٽر نعمت الله گچڪي ۽ محمد ايوب بلوچ جن هئا سرائيڪي ٻوليءَ لاءِ خواجه غلام فريد ايوارڊ رفعت عباس جي ڪتاب عشق الله سائين جاڳيا کي ڏنو ويو آهي جنهن جا منصفين ڊاڪٽر اسلم انصاري، ڊاڪٽر انور احمد ۽ اسلم رسولپوري جن هئا. بروهي ٻولي لاءِ تاج محمد تاجل ايوارڊ افضل مينگل جي ڪتاب شيشلو کي ڏنو ويو جنهن جي منصفين جسٽس (ر) امير الملڪ مينگل ، مير صلاح الدين مينگل ۽ ڊاڪٽر عبدالرحمن بروهي جن شامل هئا. انگريزي ٻولي لاءِ پطرس بخاري ايوارڊ ڪامله شمسي جي ڪتاب Broken verses کي ڏنو ويو آهي جنهن جا منصفين ڊاڪٽر محمد علي صديقي مشير، انور علي ڊاڪٽر سعيده اسد الله جن هئا هنن ڪتابن تي قومي ادبي ايوارڊ ماڻيندڙ سڀني منصفين کي پنجاهه پنجاهه هزار روپيا پڻ ڏنا ويندا.
آغا نور محمد پٺاڻ
ريزيڊنٽ ڊائريڪٽر
Ministry of Education Government of
Press Release
The
Kamal-e-Fun Award is the highest literary award in the field of literature for recognition of lifetime’s achievement in creative and research work. The amount of this award is Rs. 500,000/-.
Pakistan Academy of Letters has also announced the National Literary Awards for the year 2005 on the best literary books written during the year in Pakistani languages Urdu, Punjabi, Sindhi, Pashto, Balochi, Seraiki, Brahui and in English language.
According to the decision of the panel for Urdu poetry ‘Dr. Allama Muhammad Iqbal Award’ is given to Shahzad Ahmad on his book “Aaney Wala Kal”, (Judges: Aftab Iqbal Shamim, Dr. Saleem Akhtar, Dr. Rubina Tareen), in Urdu Prose ‘Baba-I- Urdu Dr. Molvi Abdul Haq Award’ is given to Dr. Aslam Farrukhi on his book “Laal Sabz Kabootaroon Kee Chhatri”, (Judges: Intizar Hussain, Dr. Anwar Sadeed, Zahida Hina), in Punjabi ‘Syed Waris Shah Award’ is given to Mir Tanha Yousufi on his book “Kaala Chanan” (Judges: Dr. Shahbaz Malik, Farkhanda Lodhi, Shafqat Tanveer Mirza) in Sindhi ‘Shah Abdul Latif Bhitai Award’ is given to Muhammad Hussain Kashif on his book “Latifi Fiker Ain Suran Jee Sajah” (Judges: Hameed Sindhi, Dr. Ghulam Ali Alana, Imdad Hussaini ), in Pashto ‘Khushall’ Khan Khattak Award’ is given to Rahmatullah Dard on his book “Dard” (Judges: Ayaz Daudzai, Zaitoon Bano, Abdul Karim Baryaley) , in Balochi ‘Mast Tauq Ali Award’ is given to Zafar Ali Zafar on his book “Hamboeen Dazot” (Judges: Muhammad Baig Begal, Dr. Naimatullah Gichki, Muhammad Ayub Baloch), in Seraiki ‘Khwaja Ghulam Farid Award’ is given to Rifat Abbass on his book “Ishq Allah Saeen Jagiya” (Judges: Dr. Aslam Ansari, Dr. Anwar Ahmad, Aslam Rasoolpuri) in Brahui ‘Taj Muhammad Tajal Award’ is given to Afzal Mengal on his book “Sheshlo” (Judges: Justice ® Ameer-ul-Mulk Mengal, Mir Salahuddin Mengal, Abdul Rahman Brahui), and in English language ‘Patras Bukhari Award’ is given to Kamila Shamsie on her book “Broken Verses” (Judges: Dr. MuhammadAli Siddiqui, Mushir Anwar, Sr. Saeda Asadullah).
An amount of Rs. 50,000/- will be presented to each award winner.
Muhtaram Janab Nasir Abbas
Editor Daily Dawn Karachi, السلام علیکم:
Dear Sir,
This important news remained unpublished in Daily Dawn Karachi you are requested to kindly grace this news to be published in any corner of your metropolitan or national pages.
With profound regards
Agha Noor Muhammad Pathan
Resident Director
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
رپورٹ:
اکادمی ادبیات پاکستان اور یاران بذلہ سنج کے زیراہتمام دومزاح نگار ابوالفرح ہمایوں اور مرزا عابد عباس کی کتابوں بالترتیب "" جوئے لطافت"" اور "" زرآفت"" کی مشترکہ تعارفی تقریب مورخہ ۱۱ آگسٹ ۲۰۰۶ کو سٹی آفسرز کلب کراچی میں منعقد ہوئی صدارت معروف و مقبول مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کررہے تھے اور مھمان خاص تھے جناب محمد عبدالرؤف صدیقی وزیر داخلہ حکومت سندھ ۔ نظامت کے فرائض شاعرو صحافی اور روزنامہ "نوائے وقت" کے ادبی صفحے کے انچارج جناب راشد نور نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیے۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد انور احمد علوی صاحب کو گفتگو کی دعوت دی گئی ۔ انہوں نے کہا ۔ "ہمایوں صاحب ہلکے پھلکے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں اور عام فہم الفاظ سے کام چلاتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ بازار ہیں مار نہیں کھائیں گے۔ ان کے گھر کی گارنٹی البتہ ہم نہیں دے سکتے۔ " نسیم انجم صاحبہ اور جناب معراج جامی نے بھی اپنی شگفتہ باتوں سے حاضرین کو خوش ہونے کا موقع فراہم کیا۔
معروف شاعر اور نقاد سلمان صدیقی نے اپنی تقریردل پذیر شروع ہی کی تھی کہ وزیر داخلہ سندھ عبدالرؤف صدیقی کی آمد کا غلغلہ بلند ہوا۔ انہیں فوراً ہی کسی اہم میٹنگ میں جانا تھا ۔ لہذا سلمان صدیقی کو روک کر ان کو بات کرنے کا موقع دیا گیا۔ وہ بولے اور خوب بولے پہلے تو انہوں نے صاف گوئی سے کہا کہ دونوں کتابیں پڑھنے کا انھیں موقع نہیں ملا ۔ اس کے بعد چند منٹ تک سماجی، معاشی اور ادبی مسائل پر گفتگو کرتے رہے۔ وہ کہ رہے تھے کہ ایک ادیب بڑی محنت سے کتاب لکھتا ہے ، پھر اسے نہ معلوم کیسے شائع کراتا ہے ۔ اس کے بعد بڑی دھوم دھام سے کتاب کی تقریب رونمائی ہوتی ہے۔ اتنے کٹھن مراحل سے گذرنے کے باوجود کتابیں بکتی نہیں ۔ ادب کے پرستاروں کا فرض بنتا ہے کہ کتابیں خریدیں ۔ انھوں نے دونوں مصنفین کی پچاس پچاس کتابیں خریدنے کے ساتھ تقریب کے اخراجات برداشت کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ ان کی اس دریا دلی پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔
سلمان صدیقی نے اپنی تقریر کو یوں انجام تک پہنچایا۔ "عابد عباس کی شگفتہ تحریریں ان لوگوں کے لیے ہیں جو مزاح کی کارفرمائی زیر لب تبسم پر یقین رکھتے ہیں۔ مرزا عابد عباس کے مزاح میں پھکڑ پن کی کثافت نہیں ہے۔ ان کی تحریریں ایک مخصوص رکھ رکھاؤاور وضع داری جگہ جگہ مہذب مزاح نگاری کا بھرم رکھتی ہے اور مزاح کا یہی رنگ اس دل کشی پیرائیہ اظہار کا حرف زریں ہے۔ " اور پھر
پروین جاوید آئیں اور محفل پر چھاگئیں ۔ ان کی تقریر کا لب لباب یہ تھا ۔" تازہ ترین واردان شوق میں ابوالفرح ہمایوں اور مرزا عابد عباس کا نام قابل تحسین ہے۔ جنہوں نے مزاح کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہے اور زندگی کے معمولی اور روزمرہ کے مسائل و واقعات لے مزاح پید اکیا ہے۔ یہ دونوں کتابیں مزاح اور طنزیہ مضامین کا خوبصورت مجموعہ ہیں ۔
جناب علی حیدرملک نے گفتگو کا آغاز بڑے مدبرانہ انداز میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں مصنفین میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان کے یہاں مزاح نگاری ایک ورثہ کی صورت میں چلی آرہی ہے۔ ابوالفرح ہمایوں کے والد ابوظفرزین فکاہیہ کالم نگاری میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور مرزا عابد عباس کے چچا مرزا حیدر عباس ایک معروف مزاح نگارتھے۔
اب باری تھی جناب سرور جاوید کی ۔ انہوں نے ان الفاظ میں مصنفین کو خراج تحسین پیش کیا ۔ ابوالفرح ہمایوں کی "جوئے لطافت" اور مرزا عابد عباس کی "زرآفت" طنزو مزاح سے پر نثری مضامین پر مشتمل کتابیں ہیں جن میں صاف ستھرا مواد ہے۔ جناب امیر الاسلام ہاشمی نے فرمایا ۔ "مزاح نگار خواہ وہ شاعر ہوں یا نثر نگار ، بیگم کو مخاطب کرکے جو کہہ جاتے ہیں وہ کسی اور کو مخاطب کرکے کہنا ممکن نہیں ہے۔
اس کے بعد مصنفین کو دعوت مبارزت دی گئی ۔ پہلے "زرآفت" کے مصنف مزرا عابد عباس تشریف لائے ۔ انہوں نے کہا تقریر کرنا ان کی مجبوری ہے اس لیے کہ انھیں کی کتاب کی تقریب پذیرائی ہے۔ وہ کہ رہے تھے کہ یہ کتاب لکھ کر وہ آفت زر میں متبلاہوگئے ۔ لیکن شاید" جوئے لطافت" کے مصنف کو جوئے میں بہت فائدہ ہوا۔ ابوالفرح ہمایوں نے کھانے پینے کے حوالے سے اپنا تازہ فکاہیہ سنایا۔
صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کہنے لگے کہ جومزاحیہ شاعر یا نثر نگار لطیفے نقل کرتا ہو وہ مزاح طنز کے معیار سے خارج ہے۔ انہوں نے وزیر داخلہ سندھ کی فراخ دلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ مصنفین نہ جانے کیا سوچ رہے ہوں لیکن مجھے یہ خیال آرہاہے کہ اگر تقریب کے اخراجات محکمہ داخلہ کو برداشت کرنے تھے تو کیوں نہ یہ تقریب شیرٹن میں منعقد کی گئی؟
آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان نے کہا کہ نفسیاتی گھٹن اور اداسی کے ماحول میں جہاں ہمارا شہری آجکل بری طرح سے پریشان ہے اس میں ہمارے مزاح نگا۔ ان کے مفرح القلوب ثابت ہوتے ہیں لہذا مزاح نگاری کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اکادمی اس صنف میں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھے گی۔ انہوں نے مصنفین کو مبارک دینے کے ساتھ سامعین اور مقررین کاشکریہ ادا کیا ۔
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
پریس ریلیز
اکادمی ادبیات پاکستان کے پروگرام ادبی اوطاق میں
دو مزاحیہ کتب "زرآفت" اور جوئے لطافت کی رونمائی"
مادی مسائل اور پریشانیوں کے اس دور میں مزاح نگاری مفرح القلوب نسخے کی حیثیت رکتھی ہے۔ یہ بات دومزاح نگارو ابوالفرح ہمایوں اور مرزا عابد عباس کی کتابوں جوئے لطافت اور "زرآفت" کی تقریب اجراء کے موقعے پر اکادمی ادبیات پاکستان کے پروگرام ادبی اوطاق رؤف صدیقی صوبائی وزیر داخلہ نے بطور مھمان خاص خطاب کرتے ہوئے کہیں صدر محفل ممتاز مزاح نگار اور کالم نویس ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے کہا کہ لطیفہ گوئی اور مزاح نگاری دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ جو مزاحیہ شاعر یا نثر نگار لطیفے نقل کرتا ہے وہ مزاح نگاری اور طنز کے دائرے اور معیار سے خارج ہے۔
معروف مزاح نگار انور احمد علوی نے کہا ہمایوں صاحب عام فہم الفاظ میں مزاح لکھتے ہیں اور کام چلاتے ہیں معراج جامی نے کہا عابد عباس اور ابوالفرح ہمایوں کی تحریریں شگفتہ ہیں اور ان لوگوں کے لئے ہی جو زیر لب تبسم پر یقین رکھتے ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ مرزا عابد عباس کے مزاح میں مخصوص وضع داری اور مہذب مزاح نگاری کا بھرم موجود ہے۔ پروین جاوید نے کہا دونوں مزاح نگار مزاحیہ ادب میں خوبصورت اضافہ ہی اور دونوں روز مرہ زندگی کے مسئل اور واقعات سے مزاح پیداکرتے ہیں۔ افسانہ نگار اور نقاد علی حیدر ملک نے کہا کہ دونوں مصنفین کے اندر مزاح نگاری ایک ورثہ کی صورت میں موجود ہے ابوالفرح ہمایوں کے والد ابوظفر زین فکاہہ کالم نگاری میں ایک خاص مقام رکتھے تھے اور مرزاعابد عباس کے چچا مرزا حیدر عباس ایک معروف مزاح نگار تھے ، نسیم انجم نے کہا کہ دونوں کتابیں مزاح اور طنزیہ مضامین کا خوبصورت مجموعہ ہیں۔ معروف شاعر اور نقاد سرور جاوید نے کہا کہ دونوں کتابیں مزاحیہ ادب کی پر اثر نثر کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کے یاں مزاحیہ نثر کی طرف منفرد انداز نظر آتا ہے۔ معروف مزاحیہ شاعر امیر الاسلام ہاشمی نے فرمایا کہ علی حیدر ملک کے سوال کہ مزاحیہ شاعری کرنے والے کو بگیم کے دائرے سے نکل کر کچھ کرنا چائیے کہ جواب میں کہا کہ مزاح نگار شاعر ہو یا نثر نگار خواہ وہ شاعرہوں یا نثر نگار بیگم کو مخاطب کرکے جو کہ جاتے ہیں وہ کسی اور کو مخاطب کرکے کہنا ممکن نہیں ہے۔ آخر میں زرآفت کے مصنف مرزا عابد عباس جوئے لطافت،کے مصنف ابوالفرح ہمایوں اور اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغانور محمد پٹھان نے مھمانان گرامی اور مقررین کی شکریہ ادائیگی پر تقریب کا اختتام ہوا۔
جناب اختر سعیدی آغا نورمحمد پٹھان
انچارج جہان ادب ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
جنگ مڈویک میگزین
کراچی
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
پریس ریلیز
"جشن آزادی کے حوالے سے لوک ادبی پروگرام "
سندھی لوک ادب پاکستانی ادب میں اتنہائی شاہوکار ہے اور اس کے اردو ۔ انگریزی میں تراجم کا اہتمام ہونا چایئے یہ بات سندھی زبان کے ممتاز ادیب ، شاعر اور دانشور پروفیسر سید قلندر شاہ لکیاری نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام پیر حسام الدین راشدی آڈیٹوریم ادارہ انسٹیٹیوٹ آف سندھ الاجی جامشورو میں جشن آزادی کے حوالے سے لوک ادب کے ایک پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ لوک ادب کے حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے جو کام کیا ہے اسے انگریزی اور اردو زبان میں اکادمی ادبیات پاکستان اور سندھی ادبی بورڈ کو تراجم کا اہتمام کرانا چائیے جو پاکستانی لوگ ادب کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ سندھی لوک ادب کے ماہر اور سندھ ترقی پسند سگھڑ لوک ادب تنظیم ""سلات"" کے صدر نے کہا کہ لوک ادیبوں اور شاعروں نے صدیوں سے سندھی لوک ادب کی سینہ بہ سینہ حفاظت کی ہے لہذا ان کے کام کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اکادمی کی جانب سے "" سگھڑوں "" کو بھی قومی ادبی ایوارڈز میں شامل کیا جائے ۔ اس موقعے پر سندھ بھر سے مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوک شاعروں اور ماھرین نے لوک ادب کی مختلف صنفوں پر اظہار خیال اور فن کا مظاہرہ کیا اور جشن آزادی کے حوالے سے قومی نغمے پیش کئے۔ اکادمی ادبیات پاکستان سندھ کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغانور محمد پٹھان نے کہا کہ لوک ادب ہمارے ثقافت کا اہم حصہ ہے اس کی ترقی کے لئے اکادمی بھرپورکوشش کریگی اورلوک ادب کے ماہرین ""سگھڑوں"" کو قومی اور عالمی سطح پر متعارف کرانے کی کوشش کی جائے گی۔
Ministry of Education Government of
Press Release
The
Kamal-e-Fun Award is the highest literary award in the field of literature for recognition of lifetime’s achievement in creative and research work. The amount of this award is Rs. 500,000/-.
Pakistan Academy of Letters has also announced the National Literary Awards for the year 2005 on the best literary books written during the year in Pakistani languages Urdu, Punjabi, Sindhi, Pashto, Balochi, Seraiki, Brahui and in English language.
According to the decision of the panel for Urdu poetry ‘Dr. Allama Muhammad Iqbal Award’ is given to Shahzad Ahmad on his book “Aaney Wala Kal”, (Judges: Aftab Iqbal Shamim, Dr. Saleem Akhtar, Dr. Rubina Tareen), in Urdu Prose ‘Baba-I- Urdu Dr. Molvi Abdul Haq Award’ is given to Dr. Aslam Farrukhi on his book “Laal Sabz Kabootaroon Kee Chhatri”, (Judges: Intizar Hussain, Dr. Anwar Sadeed, Zahida Hina), in Punjabi ‘Syed Waris Shah Award’ is given to Mir Tanha Yousufi on his book “Kaala Chanan” (Judges: Dr. Shahbaz Malik, Farkhanda Lodhi, Shafqat Tanveer Mirza) in Sindhi ‘Shah Abdul Latif Bhitai Award’ is given to Muhammad Hussain Kashif on his book “Latifi Fiker Ain Suran Jee Sajah” (Judges: Hameed Sindhi, Dr. Ghulam Ali Alana, Imdad Hussaini ), in Pashto ‘Khushall’ Khan Khattak Award’ is given to Rahmatullah Dard on his book “Dard” (Judges: Ayaz Daudzai, Zaitoon Bano, Abdul Karim Baryaley) , in Balochi ‘Mast Tauq Ali Award’ is given to Zafar Ali Zafar on his book “Hamboeen Dazot” (Judges: Muhammad Baig Begal, Dr. Naimatullah Gichki, Muhammad Ayub Baloch), in Seraiki ‘Khwaja Ghulam Farid Award’ is given to Rifat Abbass on his book “Ishq Allah Saeen Jagiya” (Judges: Dr. Aslam Ansari, Dr. Anwar Ahmad, Aslam Rasoolpuri) in Brahui ‘Taj Muhammad Tajal Award’ is given to Afzal Mengal on his book “Sheshlo” (Judges: Justice ® Ameer-ul-Mulk Mengal, Mir Salahuddin Mengal, Abdul Rahman Brahui), and in English language ‘Patras Bukhari Award’ is given to Kamila Shamsie on her book “Broken Verses” (Judges: Dr. MuhammadAli Siddiqui, Mushir Anwar, Sr. Saeda Asadullah).
An amount of Rs. 50,000/- will be presented to each award winner.
محمد جمن هالو ٽرسٽ
هالو پلازه، محمد جمن هالو اسٽريٽ
نزد بغدادي ٿاڻو، شاهه عبداللطيف
ڀٽائي روڊ ، لياري ٽائون ڪراچي
فون 021-4531588
موبائل 0300-2161614
پریس ریلیز
کراچی(پ۔ر) محمد جمن ھالو ٹرسٹ کی جانب سے سال 2006 کے دوران کراچی و ٹھٹہ سے شایع ہونے والی بہترین سندھی کتاب کا ایوارڈ محترمہ جی اے منگھانی کو دیا گیا ہے یہ ایوارڈ ان کو سال 2006 کے دوران بہترین ناول "رڃ" (سراب) پردیا گیا ہے۔ اس سلسلےمیں ایوارڈ کمیٹی کی میٹنگ معروف شاعر پروفیسر قلندر شاہ لکیاری کی صدارت میں اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے دفتر میں منعقد ہوئی جس میں کمیٹی کے اراکین علی محمد اشق، آغا نور محمد پٹھان اور احمد ھالو شریک ہوئے اور متفقہ طور پر محترمہ جی ایم منگھانی کو انکی کثیر الجہتی ادبی خدمات کےا عتراف اور ان کی تازہ ترین تخلیق اورناول "رڃ" پر یہ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
جناب نیوز ایڈیٹر
احمر ھالو
رکن ایوارڈ کمیٹی
اکادمی ادبیات پاکستان
Ministry of Education Government of
"پہلا محمد جمن ھالو ادبی ایوارڈ"
(پ ۔ر)کراچی اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے پروگرام "ادبی اوطاق" میں محمد جمن ھالو ٹرسٹ کے جانب سے پہلا محمد جمن ھالو ادبی ایوارڈ ج ۔ع منگھانی (جنت خاتون علی محمد منگھانی) کو دیا گیا۔ ایوارڈ کی تقریب اجرا کی صدارت محترمہ فاطمہ ثریا بجیا مشیر وزیراعلی سندھ نے کی ۔ جبکہ مھمان خاص ممتاز شاعر پروفیسر قلندر شاہ لکیاری تھے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اکادمی ادبیات پاکستان آغا نور محمد پٹھان نے اپنے استقبالی کلمات میں کہا کہ 2006 محمد جمن ھالو ٹرسٹ کی جانب سےیہ ایوارڈ کراچی اور ٹھٹہ سے نثر و نظم میں شایع شدہ سندھی کتب پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اور مذکورہ سال میں تمام شایع شدہ کتب میں (ج ۔ع منگھانی) کا تخلیقی و تحقیقی کام سب سے زیادہ لائق توجہہ ثابت ہوا۔ کیونکہ ان کی اس سال میں بیک وقت شاعری، تحقیق اور ناول نگاری پر تین کتب شایع ہوئی ہیں انھوں نےکہا کہ ایک گھریلو خاتون ہوتے ہوئے انھوں نے یہ کام کرکے بڑا ادبی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔محترمہ فاطمہ ثریا بجیا نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جنت خاتون علی محمد منگھانی دریائے سندھ کی طرح فعال اور حوصلہ مند خاتون ہیں جس طرح دریائے سندھ کو شیر دریاء کہا جاتا ہے اس طرح ہماری سندھ کی خواتین بھی حوصلہ مند ہیں۔ انہوں نے ج ۔ع منگھانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ گھریلو خاتون ہوتے ہوئے تخلیق و تحقیق میں بڑا کام کردکھایا ہے جو قابل تعریف ہے۔ مھمان خصوصی اور ایوارڈ کمیٹی کے چئیرمن ممتاز شاعر پروفیسر قلندر شاہ لکیاری نے کہا کہ ج۔ع منگھانی کے ناول رڃ (سراب) کو 2006 کا بھترین ناول قرار دیا گیا ہے اور انہوں نے اس ناول میں سندھ کے کو ہستانی علاقے کے لوگوں کی زندگی کے رنکوں کی اس میں عکاسی کی ہے انہوں نے کہا کہ اس ناول کے اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں میں تراجم ہونےچاہئیں ۔ سندھ مدرسہ کالج کے پرنسپل کرنل (ر) تاج محمد میمن نے کہا کہ سندھی ادب میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا بھی اہم کردار رہا ہے ثمیرہ زرین سے لیکر ج ۔ ع منگھانی تک یہ سلسلہ بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے کہا کہ صوبہ سندھ کا علاقہ ٹھٹہ کی سرزمین ادب کے لحاظ سے بھی نہایت زرخیزہے اور محمد جمن ھالو اس سرزمین کی کے خوشبودار پھول تھےجنہوں نے کراچی شہر میں ادبی محفلوں کی آبیاری کی اور لیاری جیسے پس ماندہ علاقے میں ادیبوں کو فعال بنایا ممتاز محقق ڈاکٹر کمال جامڑو نے کہا کہ محمد جمن ھالو ٹرسٹ اور اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے اس طرح کے ایوارڈ جاری کرنے سے تخلیقاروں اور محققین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یہ ایوارڈ بالخصوص خواتین اہل قلم کے لئے ایک نیک شگوں ہے۔ اس موقعے پر علی محمد اشک نے محمد جمن ھالوکا تفصیلی تعارف پیش کیا اور اقبال شاھین اور راشد کنڈی نے منظوم خراج تحسین پیش کیا۔آخر میں محمد جمن ھالو ٹرسٹ کے چئرمن احمر ھالو نے صدر ، مھمان خصوصی اور تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا اور ج ۔ع منگھانی کے بھائی پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش بکک نے اپنی نہن کا ایوارڈ وصول کیا۔
محترم جناب نیوز ایڈیٹر آغا نور محمد پٹھان
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
Ministry of Education Government of
Press Release
(P.R) The renowned Urdu writer, scholar and critic Dr. Qamar Raees passed away after a brief illness in
Fakhar Zman , Chairman , PAL said that he had personal relationship with Dr. Qamar Raees. He was a very affectionate and refined personality The work which he had done to promote peace between
Fakhar Zman, Chairman, PAL and Director General, PAL Khalid Iqbal Yasir , Zaheer-ud-Din
Agha Noor Muhammad Pathan
Resident Director