Safarnam of Sindh by Dr Shaheen Mufti

سندھ ایسا تو نہیں تھا

ڈاکٹر شاہین مفتی گجرات، صوبہ پنجاب، پاکستان
جس لمحے اکادمی ادبیات پاکستان سے میر نواز اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا فون آیا اور سندھ کے دورے کی دعوت ملی، میں دو قبروں کے درمیان سعی میں مصروف تھی۔ میرا عزیز بھائی اور میری عزیز دوست ایک ہی مہینے کے وقفے سے اس دنیا کے نقشے سے نکل کر کسی اور ہی عدم آباد کو سدھارے تھے۔ قبر کا احوال اور میت کی لاچارگی خون کے آنسو رلا رہی تھی، معاملات محبت اور برسوں کی رفاقت کی مستقل ریل چلاتے چلاتے دماغی پراجیکٹر ماو¿ف ہوگیا تھا ۔فرار کا راستہ نظر آیا تو سوچا چلو نوڈیرو میں بے نظیر کے مقبرے کی زیارت کا موقع ہاتھ لگا ، اب قبروں میں ایک اور اضافہ ہوگیا تھا۔ اکادمی کے ڈی جی محترم ظہیرالدین ملک سے رابطہ ہوا تو پتہ چلا موسم کی شدت اور دورے کی طوالت کے باعث کوئی اور خاتون فہرست میں شامل نہیں۔ میں نے حفظ ماتقدم کیئرٹیکر کے طور پر ایک عزیزہ کا نام تجویز کیا۔ یہ شرط اکادمی نے بخوشی تسلیم کرلی ۔چنانچہ ۹ جون ۹۰۰۲ شام سات بجے ہم اکادمی کے گیسٹ ہاو¿س میں تھے۔ اکیڈمی کی ڈپٹی ڈائریکٹر نگہت سلیم صاحبہ جو ہماری دوست بھی ہیں، ہم سے بغرض ملاقات آئیں تو دورے کے اغراض و مقاصد کا علم ہوا۔ نگہت دیر تک کراچی کی زندگی کے اسرارو رموز سمجھاتی رہیں، بلکہ اندرون سندھ کا نقشہ کچھ اسطرح سے بتایا گیا کہ ہمیں خوف محسوس ہونے لگا ۔آخر انہوں نے مسکراتے ہوئے پروگرام کی تفصیل ہاتھ میں دی تو اندازہ ہوا کہ یہ دورہ اکیڈمی آف لیٹرز حکومت سندھ کلچرڈپارٹمنٹ اور سندھ کی ضلعی حکومتوں کے اشتراک سے ترتیب پایاگیا ہے اور اس کا بنیادی مقصد بین الصوبائی سطح پر خیر سگالی ، بھائی چارے اور نیک جذبات کی فضا پیدا کرنا ہے۔ نیک مقاصد کی تکمیل نے اچانک دل میں ایک احساس تفا خر پید کردیا۔ نیند آنکھوں سے بہت پر ے تھی اس لئے تمام رات دل ہی دل میں سندھ کے صوفیائے کرام، شعراء،دانشور، اینکر پرسن، ڈرامہ نگار، ، مصور اور سائنس دان اپنے اپنے ناموں اور چہروں کی روشنیاں بکھیرتے رہے، پھر کہیں سے مزار قائد طلوع ہوا، میں نے حفاظتی دستے کی آنکھوں سے چھپ کر مزار سے ٹیک لگائی اور سوگئی۔ آرزو کی ثمر باری کا موسم شروع ہوچکا تھا ۔میرے چاروں جانب رنگی برنگی اجرکیں بکھری تھیں۔
۰۱ جون ۹۰۰۲ صبح ساڑھے آٹھ بجے ناشتے کے بعد اکادمی ادبیات پاکستان کے رائٹر ہاو¿س سے ڈائریکٹرجنرل ظہیرالدین ملک، میں اور میری عزیزہ آسیہ اکادمی کی ویگن کے ذریعے ” بے نظیر “ ائیرپورٹ کی جانب روانہ تھے۔ دارالحکومت کی سڑکوں پر موسم کے پھول کھلے تھے اور ان گلہائے رنگارنگ کو صبح کی نیم گرم ہوا شرارت سے چھوکر گذررہی تھی۔ ہوائی اڈے پر معمول کی جانچ پڑتال کے بعد جب لاو¿ نج میں پہنچے تو وفد کے دوبہت ہی معززا رکان ڈاکٹر رشید امجد اور محترم احسان اکبر ہمارے منتظر تھے۔ مسکراہٹ اور حال احوال کی پرسش کا تبادلہ ہوا۔ جلد ہی شاہین ائیرویز کی دس بجے کراچی روانہ ہونے والی پروازکا اعلان ہوگیا اور ہم لوگ بھی ایئربس کے ذریعے مطلوبہ منے سے جہاز تک پہنچ گئے۔ یہ معصوم سا پرندہ ٹھیک ایک گھنٹہ پنتالیس منٹ بعد کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ پر تھا۔ وفد کے اور ارکان محترم ڈاکٹر سلیم اختر ، قاضی جاوید، اعزاز احمد آذر اورڈاکٹر طاہر تونسوی لاہور سے اسی وقت کراچی پہنچنے والی فلائٹ سے انتظار گاہ تک پہنچ چکے تھے اور ہماری ہی طرح اپنے اپنے سامان کے منتظر تھے۔ خیرسگالی کے فقروں اور احساسات کے تبادلے کے بعد اپنی اپنی ٹرالی کے ہمراہ جونہی ہم گیٹ سے باہر نکلے توخواص میں تبدیل ہوچکے تھے۔ اکادمی ادبیات صوبہ سندھ کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آغانور محمد پٹھان پھولوں کے ہار لئے اور اجرکیں سنبھالے اپنے عملے ،دیگر احباب اور فوٹو گرافر کے ہمراہ ایک والہانہ استقبال کے لئے موجود تھے۔ذرا فاصلے پر ایک چمکدار کوچ ایک عدد پولیس سکواڈ کے ساتھ ہماری منتظر تھی۔ مجھے غالب کا ایک شعر یاد آگیا
خانہ زادِ زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا زنداں سے گھبرائیں گے؟
اب ہم کچھ دنوں کے لئے محبت کی اسی گرفتاری کے لئے ہی چنے جاچکے تھے۔ ڈائریکٹر جنرل وفد کے اراکین کا تعارف کروا چکے تو معاملے کی کمان آغا نور محمد پٹھان نے اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اگلے چھ دنوں میں انہوں نے ایک ”باہمت راہنما“ ہونے کے جملہ ثبوت بھی فراہم کردیئے۔ آغا نور محمد پٹھان نے شکارپور(سندھ) میں جنم لیا اور پھرتعلیم مکمل کرنے کے بعد بیشتر وقت اکیڈمی کی خدمات پر ہی مامور رہے۔ ” سن آف دی سائیل“ کی اصطلاح ان پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ وہ سندھ کے چپے چپے سے واقف ہیں، سندھ کی مقامی بولیوں ٹھولیوں سے آگاہ ہیں، سندھ کی تاریخ و تہذیب کے مداح ہیں۔ یوں سمجھئے وہ ایک چلتا پھرتا سندھی انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ بین الاقوامی شعور رکھتے ہیں، لیکن بہت سے نازک معاملات میں ایک جارحانہ بے نیازی کا ثبوت دے کر گفتگو سے الگ ہوجاتے ہیں۔ یہ دورہ جو انہوں نے ترتیب دیا تھا ان کی انتظامی صلاحیتوں اور پبلک ریلیشنگ کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
المختصر اب یہ قافلہ فلائنگ کوچ پر سوار تھا۔ کراچی کی پر ہجوم مگر خاموش شاہراہوں سے گذر کر آخر کار ہم نسبتاً ایک پر سکون اور محفوظ مقام پر تھے۔ سفید گیٹ دونوں جانب سے رنگ برنگ پھولوں والی بیلوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک وسیع و عریض لان میں شائستگی سے کٹے ہوئے چھوٹے درخت سرخ پھولوں سے سجے تھے اور سٹیل ٹاو¿ن بن قاسم کے گیسٹ ہاو¿س کا عملہ ریسپیشن پر ہمارا منتظر تھا۔ یہ سفید رنگ کا صاف شفاف گیسٹ ہاو¿س کئی منزلوں پر مشتمل ہے لیکن اس کی عجیب سی خاموشی دل کو دہلاتی ہے۔ آج کی رات اسی مہمان خانے کی تیسری منزل ہمارے لئے چوتھا آسمان بننے والی تھی۔
یہیں دن کے اڑھائی بجے اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ایک پر تکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔ ظہرانے کے دوران ہی گوادر بلوچستان کے شہنشاہ غزل ظفر علی ظفر بلوچ اور پشاور سے محترم سلیم راز بھی تشریف لے آئے ۔ کھانا پُر تکلف اور لذیز ہوتو آداب خود آگاہی اور اسرار شہنشاہی کی منزل آسان ہوجایا کرتی ہے۔ چنانچہ مرغ مسلم اور بریانی کے ساتھ بہت سے موضوعات پر دانش وروں کی گفتگو سننے کا موقع ملاِ۔ اِسی میز کے کسی ایک سِرے پر بیٹھے ”واہگہ“ ناول کے مصنف نذیر کہوٹ زمانے کی روش تبدیل کرنے میں سب سے زیادہ سرگرمِ عمل رہے۔ آخر آغا نور محمد پٹھان نے نادرشاہی حکم صادر کیا کہ سب حضرات کو دوگھنٹے آرام کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ پانچ بجے ریجنٹ پلازہ لے جایا جائے گا جہاں محکمہ ثقافت وسیاحت ،حکومت سندھ کی جانب سے وفد کے لئے استقبالیہ ترتیب دیا گیا ہے اور اس موقعے پر سندھی ادیبوں میں ایوارڈبھی تقسیم کرنے کی تقریب منعقد کی جارہی ہے ۔کلچر منسٹر محترمہ سسئی پلیجو اور چیف منسٹر سندھ سید قائم علی شاہ کی آمد متوقع ہے۔
پانچ بجے جب ہم تین منزلیں اتر کر آئے تو شہر کی حالت تبدیل ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر قادر مگسی ٹیلی ویژن پر اپنے جلوس پر فائرنگ سے مرجانے والے لوگوں کے بارے میں احتجاج ریکارڈ کرارہے تھے۔ ایک تشویش کی لہر کے زیر اہتمام جب ہمارا قافلہ ریجنٹ پلازہ پہنچا تواس وقت تک شام بہت گہری ہوچکی تھی۔ شاید آٹھ بج رہے تھے۔
ہوٹل ریجنٹ پلازہ ایک انٹرنیشنل ہوٹل ہے جس کی اندرونی آرائش دیدنی ہے۔ جب آپ ایک بہت ہی معمول کے راستے سے گذر کر ہوٹل میں داخل ہوتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لئے مبہوت ہوجاتے ہیں، خاص طورپر اس کا ایک دیوقامت فانوس اور اس کے عقب میں مصنوعی آبشاروں سے گرنے والے پانی کی آواز تھوڑی دیر کے لئے قدم روک لیتی ہے۔ اس ہوٹل میں مجھے پہلے بھی قیام کا موقع ملا ہے۔ اس کا کھانا، ہائی ٹی اور سروس شاندار ہے۔
آج چیف منسٹرکی متوقع آمد کے باعث سیکورٹی کافی سخت ہے ۔بل دار سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہم پہلی منزل پر آپہنچے ہیں۔ ایک وسیع ہال میں تقریب کے سلسلے میں سندھ کی تمام زبانوں کے ادیب شاعر جمع ہیں۔ ہال سے متصل راہداریوں میں چائے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اکادکا شرکاءایک نسبتاً خاموش راہداری میں بیٹھے سگریٹ نوشی کے مزلے لوٹ رہے ہیں۔ یہیں کچھ فاصلے پر ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ کیریکٹر ایکٹر معین اختر اپنے چند مداحوں کے ساتھ موجود ہیں۔ قریب ہی سندھی شعرو ادب اور سندھی تہذیب سے متعلق کتابوں کا ایک سٹال ہے جہاں وقت گذاری کے لئے کتابیں دیکھی جارہی ہیں۔
ہال میں ایک بہت بڑے بینر کے سائے تلے بچھی ہوئی کرسیوں سے ہٹ کرایک جانب سحرامداد ، فاطمہ حسن، آصف فرخی،مبین مرزا اور دیگر ادیب بیٹھے ہیں۔ صف اول کے صوفوں پر محترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر سحرانصاری اور دوسرے اکابرین کی زیارت کا موقع ملا ہے۔ حاضرین کی آخری نشستوں سے ذرا فاصلے پر پنجابی انسٹیٹیوٹ آف کلچر اینڈ لینگویج اور کلچرل ونگ کے ڈائریکٹر عباس نجمی ایک ریڈیو ریکارڈنگ میں مصروف ہیں ، جنہوں نے اس خوف سے میرے ساتھ ایک تصویرکھنچوائی ہے کہ وہ اسے میری موت کے بعد ایک یادگار کے طورپر استعمال کریں گے۔ اچانک سرخ رنگ کے لکھے ہوئے بینر کی اوٹ سے اناو¿نسر نے اعلان کیا ہے کہ شہر کے ہنگامے کے باعث چےف منسٹر ہاو¿س مےں اےک ہنگامی اجلاس جاری ہے اس لئے تقرےب ملتوی کی جاتی ہے۔ خوبصوررت سسئی پلےجو اور جمہورےت کی طوےل جنگ لڑنے والے قائم علی شاہ کو دےکھے بغےر تقرےب سے لوٹ جانے کی خبر نے ماےوسی پھےلادی ہے۔ ادےبوں کے چہرے اتر گئے ہےں۔ اسی ہجوم مےں محترم فہمےدہ رےاض مِل گئی ہےں۔ اپنے فطری والہانہ پن اور معصوم محبت کے ساتھ، وفد کے ہررکن سے فرداًفرداً خیرےت درےافت کررہی ہےں۔ ہمارے دےکھتے ہی دےکھتے لوگ چائے کی مےزوں پر ٹوٹ پڑے ہےں، دل نے تسکےن حاصل کی کہ کم ازکم کھانے پےنے کے آداب مےں ہم سب پاکستانی اےک جےسے ہےں۔اےک ہی صف مےں کھڑے ہوگئے محمود و اےاز اور پھر نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔ ہمارے مےزبان آغا صاحب نے دس بجتے ہی کوچ کا نقارہ بجادےا ہے۔اےک بھرپور فوٹو سےشن کے بعد۔
ریڈیو پاکستان کراچی کی ٹیم یہاں پہنچی ہوئی تھی جس نے وفد کے اراکین کا فرداً فرداً انٹرویو کیا، جو اس کے ادبی پروگرام رسالو میں نیشنل نیٹ ورک پر تین دن تک نشر کیا گیا۔
ہم کراچی کے ساحل سمندر پر ضلع ناظم مصطفی کمال بھائی کے ترتےب کردہ کراچی کے وسیع و عریض باغ ابن قاسم کی جانب بڑھ رہے ہےں، راستہ کافی پر رونق ہے۔ باغ تک جانب پہنچتے پہنچتے گےارہ بج گئے ہےں۔ باغ کی روشنےاں، مصطفی بھائی کے باغ کے تظمےن، مروا اور رات کی رانی کی مہک ہمارا استقبال کررہی ہے۔ گائےڈ باغ کی ہسٹری بےان کررہا ہے۔ اس باغ کارقبہ اےک سواڑتےس اےکڑ ہے۔ اس کا نام فاتح سندھ محمد بن قاسم کے نام پر رکھا گےا ہے۔ سندھ مےں رہنے والے سب مسلمان ابن قاسم کے بےٹے ہےں، چنانچہ ہم اس باغ کو ابن قاسم باغ کہتے ہےں۔ باغ زےنہ بہ زےنہ آگے بڑھتا اور پھیلتا چلا جارہا ہے۔ مےرے وفد کے ارا کےن گائےڈ کے ہمراہ اس کی آخری حدوں تک جانا چاہ رہے ہےں۔ مےں اور آسےہ آدھے زےنوں پر رُک گئی ہےں۔ کراچی کی نمی زدہ ، رخساروں سے ٹکراتی ہوئی اور پیچھے حفاظت پرمامورہوا، دُور تک پھےلی ہوئی روشنیاں ،گھمبےر خوشبو کا اسرار اور نظروں کے آخری قےام تک پھےلا ہوا ستاروں سے سجا ہوا آسمان دےکھ کر مجھے افتخار عارف کا اےک شعر یاد آگےا ہے۔
ستاروں سے بھرا آسماں کےسا لگے گا
ہمارے بعد تم کو ےہ جہاں کےسا لگے گا
انسانی فنا پذےری کے تصور نے گلے مےں گھٹن سی پےدا کردی ہے۔ ہمارے آگے بندوق بردار سےکورٹی گارڈ کا دستہ ہے۔ فاصلے پر کراچی شہر، نظر کے چاروں جانب سلےقے سے لگائے گئے درخت، دور تک تنہائی اور خاموشی کا گھنا گہرا جنگل، قدرت مراقبے میںگوےا۔و اپسی کا سفر شروع ہوا ہے۔ اب ہم باغ کے اےک بلند چبوترے جس کو ”جہانگیر کوٹھاری پریڈ “ کہتے ہیں، کے نےچے بےٹھے ہےں۔ ےہ مقام گوےا اےک وےوپوائنٹ ہے۔یہاں چلڈرن فاو¿نڈےشن کی جانب سے ڈنر کا اہتمام کےا گےا ہے۔ پورٹ اےبل برےانی اور من پسند مشروبات۔ باغ کو دےکھتے جائیے اور لذت ِ کام ودہن کا اہتمام کرتے جائیے۔ رات کا ایک بج رہاہے۔ ہم عازمِ گےسٹ ہاو¿س ہےں۔ مےزبان نے حکم داغ دےا ہے۔
صبح آٹھ بجے ناشتہ اور پھر مکلی کے قبرستان کی سیر کی تیاری پکڑنا تھی۔گوےا صبح ہونے تک تو تو اپنا کام کرجائے گی ۔ گےارہ جون کا سورج طلوع ہوا ہے۔ کچھ ناراض ساہے۔ فضا بے حد گرم ہے۔ مجھے اپنے وائس چانسلر کے الفاظ ےاد آگئے ہےں، ”آپ اےک بے حد برُے موسم مےں اےک بڑے سفر پر نکل رہی ہےں“۔ ناشتے کے دوران گےسٹ ہاو¿س کی قد آدم کھڑ کےوں سے خوبصورت پھولوں اور ہرے کچور درختوں کا منظر دل کو تقوےت دے رہا ہے۔ سامان لادا جا چکا ہے۔ ہم بھی کوچ مےں چپ چاپ بےٹھ گئے ہےں۔ قافلہ ڈسٹرکٹ ٹھٹھہ کو روانہ ہے۔ مےن روڈ سے کٹ کرہم دائےں جانب مڑگئے ہےں۔کراچی اور حےدرآباد کی قومی شاہ راہ پرچالےس پینتالےس مےل کے سفر کے بعد اب اسی تھل کی رےت ہمارا مقدر ہے۔ دُور دُور تک آدم نہ آدم زاد۔ خاک اُڑاتا آسمان۔ دل جلی زمےن۔ کانٹے دار جھاڑےاں۔ شاہ لطےف نے اسی وےرانے مےں سفر کرنے والی سسئی کو مشورہ دےا تھا
اے عورت، محبوب کو آوازےں دے اور بھنبھور مےں مت بےٹھ
پہاڑوں پر چڑھ کر”پنہوں“ کے نقشِ پا دےکھ
جستجو سے ہی تجھے اس کا پتہ ملے گا
ہم نے چھوٹے چھوٹے بے مراد ٹےلوں سے گذر کر سسئی کے شہر مےں قدم رکھا ہے جو کہتی پھرتی ہے
مےں جب اپنے آ پ مےں ڈوب کر ہم کلام ہوئی
تو نہ دشت و جبل سامنے رہے نہ کےچ والوں سے غرض رہی
مےں خود ہی پنہوں ہوگئی
ہر غم سے آزاد
فنافی الدوست کی اس منزل تک پہنچے والے وحدانےت کا بھید پاتے ہےں اور پھر خدائے واحد کی ذات مےں گم ہوجاتے ہےں۔ درےائے سندھ کے دہا نے پر آباد یہ شہر بھنبھور راب صرف چھوٹے بڑے پتھروں کی اےک فصل ہے۔ کچھ تارےخ داں اسے دےبل کی بندرگاہ سے جوڑتے ہےں جہاں نوجوان عربی سپہ سالار محمد بن قاسم 712 عےسوی بمطابق ۳۹ ہجری مےں فاتح کی حےثےت سے اترا تھا۔ اس شہر کے چھوٹے سے عجائب گھر مےں ساسانےوں کے زمانے سے لے کر ہندومت، مسلم کلچر اور پھر ےہاں مختلف اوقات مےں بسنے والے حکمرانوں کی تہذےب کے آثار ملتے ہےں۔ عجائب گھر سے اےک دروازہ دوسری جانب کھلتا ہے جہاں اےک منجنےق کا ماڈل پڑا ہے، اور پھر کافی فاصلے پرپتھروں کی اےک طوےل دےوار، جس مےں کہےں اےک مسجد کی پرچھائےاں بھی موجودہےں۔ دےوار اکساتی ہے، آو¿ مےری دوسری جانب دےکھو،تمہےں نئی دنےاو¿ں کا سراغ ملے گا۔ مےں وقت اور زمانے کے درمےان حائل ہوں۔ مےں سسئی اور پنہوں کے مابےن پھےلا فراق کا اےک لمحہ ہوں۔ آغا صاحب کی آواز نے سلسلہ خےال روک دےا ہے۔ مجھے بہت برس پہلے لکھی گئی اپنی اےک نظم ”سسئی سورج اور صحرا“ ےاد آگئی ہے۔
رےت پر پاو¿ں رکھتی ہوں
تو دل جلتا ہے
صحرا ہنس کرکہتا ہے
جتنی دُور بھی جائے گی
میں اور سورج
دونوں تےرے ساتھ چلےں گے
سسئی کی زندگی کی ےہ سعی پہےم جہاں عورت کی مظلومےت، استقامت اور ماورائی ےقےن کی داستان ہے، وہےں ےہ سسئی معاشرتی جبر، ذات پات کی تقسےم ، مالےاتی امتےازات، مقامی سازشی نظام اور انسانی تعلقات کی بدمعاشی کی بھی علامت ہے۔ سورج اور صحرا کی رفاقت پاکستان جےسے نےم ترقی پذےر ممالک کی قسمت ہے ،جن کے لئے دوہی راستے کھلے رکھے گئے ہےں، سمجھو تہ اورمحبوبیت ےا انکار کا صحرا اور مہاجرت کی پےاس مےں ہونٹوں پر دم دےنے والی زندگی۔ اندرون سندھ اور اس کے لوگ اس لمحے اسی پےاس کی کڑواہٹ سے گذر رہے ہےں جو آخر کار اےک شدےد تنافر کو جنم دےا کرتی ہے۔
پتھروں مےں اگائے گئے گنے چنے درختوں سے گذرکر ہم اےک مختصر سے رےسٹ ہاو¿س تک پہنچے جس کی ساخت موجودہ زمانے کے قرےب تھی اور جہاں کنڈا سسٹم سے بجلی پہنچا کر پنکھے چلانے کا اہتمام کےا گےا تھا۔ اس کی محراب دار غلام گردشوں مےں رات کی رانی کی بےلےں لوہے کی جالےوں سے اس طرح لپٹی ہوئی تھےں کہ گرم لوکے تھپےڑے ان سے ٹکرا کرسرد پڑجائےں۔اس علاقے کے ڈی ڈی ا و چائے کے ددران بھنبھور کی تارےخ پر روشنی ڈال رہے تھے۔ مےر علی شیر قانع ٹھٹھوی نے 773 ءمےں اس جگہ کو بھنبھور لکھا ہے۔ 1958 ءمیں ادارہ آثار قدےمہ پاکستان نے اس سائٹ کے فروغ کے لئے کام کےا۔ اس کے مےوزےم کا افتتاح 1960ءمےں کےا گےا۔
نوادرات سے سجے میوزیم ، دانش ور ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفسر کی تواضع ،سسئی اور پنہوں کی ےادوں اور خوشبو دار گرم ہوا سے رخصت چاہتے ہوئے ہم ”مکلی“ کے قدےم قبرستان کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ موت کی مقامےت اور موت کی موجودگی دہشت اور تحےر کی جنم دہندہ ہے۔ دور تک میلوں میں پھےلا ہوا ےہ” جہانِ خاموش“ شہر سے کافی اونچائی پر واقع ہے۔ قبرستان مےں پہلے پتھروں اور ملگجے مقبروں کا اےک طوےل سلسلہ عبرت سرائے دہر کا نمونہ پےش کرتا ہے۔ اس دشت کی بےنائی خوف اور کپکپی پےدا کرتی ہے۔ کچھ اراکےن مقبروں کے تعوےز پڑھنے کے لئے بے تاب تھے، چنانچہ قافلہ رکا۔ موت کے اس شہر مےں اقبال آن کھڑے ہوئے
اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
گرم ہوا قبروں سے ٹکرا کر گذر رہی تھی اور انتقام پسند سورج مقبروں کو آنکھےں دکھا رہا تھا۔ کےا دنےا بھی اےک جہنم ہے؟ مےں نے گھبرا کر آنکھیں بند کرلیں۔ آغانورمحمدکی پاٹ دار آواز سُنائی دے رہی تھی۔ ”ٹھٹھہ کے معنی ہیں تھہ تھہ۔ یہ شہر کئی سطحوں پر آباد ہے۔ مکلی کے اونچے قبرستان سے فاصلے پر کہیں ترائی میںایک آباد شہر کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ کیا خبر موت کی مستقبل نظارگی سے شہر پچک گیاہو۔ ٹھٹھہ سے کہیں آگے دریائے سندھ کی گونجیلی آواز صدیوں کے سفر کی کہانی بیان کررہی تھی۔ قافلہ عبداللہ شاہ اصحابی، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کے مزار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ پورا سندھ تصوف کے اسی طریق کا رپر ڈیزائن کیا گیاہے۔ سچائی کی تلاش ، انسان کی محبت ، تدبیرو تقدیر کے معانقے، غریبوں اور ہجرت زدوں کی داستان فراق، نوحہ زنی، اعتبار محبت ، فقر اور زہد ، بزرگانِ دین اور علما کی صحبت ، قرآنی تعلیم ، غورو فکر کے مظاہر اور شخصیت سازی کے خصوصی زاویے۔ دوسری جانب اپنی تعلیمات سے کنارہ کشی ، ویرانوں اور جنگلوں کی سیاحت، تنہائی کی عبادت، نفس کشی ، مشغولیت اور محویت کی تلقین کی گئی ہے۔ تبھی تو لطیف بھٹائی کہتے ہیں
” جنہیں تو ابیات سمجھ رہا ہے و ہ حقیقت میں آیات ہیں“
مخدومیت، اطاعت گذاری اور خاکساری کی ان تین تعلیمات کے بعد شہزادگی اور حکومت کرنے کا تصور ایک خواب سالگتا ہے۔ اب ہم ٹھٹھہ کی جامع مسجد کے سامنے ہیں جسے جہانگیراور شاہ جہان کے مقرب میر عبدل قاسم نمکین کے صاحبزادنواب سید امیر خان عبدلبقانے تعمیر کرایا ۔ شاہ جہانی دور میں644-47 ءکے دوران تعمیر ہونے والی اس مسجد کی فضابہت پر سکون ہے۔ دور دور تک سبزہ زار دکھائی دیتا ہے۔ مسجد کے بڑے صحن میں مغلئی ٹائل ورک اپنی بہار دکھارہا ہے۔ یہ صحن اتنا بڑا ہے کہ اس میں بیک وقت پچیس ہزار لوگ نماز اداکر سکتے ہیں۔ مسجد کا بڑا گنبد نیلی سفید ٹائلوں سے مزین ہے۔ ایک لوک روایت ہے کہ مسجد کے معمار نے وصیت کی تھی کہ اُسے مسجد کے صدر دروازے کے سامنے دفنایا جائے تاکہ نمازی اس کی قبر پر پاو¿ں رکھ کر گذریں اور اس کی مغفرت کا سامان کریں۔ ازاں بعد اس کے جسدِ خاکی کو کہیں اور منتقل کردیاگیا۔ میر عبدل قاسم نمکین کا صاحبزادہ نواب سید امیر خان جو عرصہ تک ٹھٹھہ اور سیہون شریف کا گورنر رہا، گورنری کے دوران اس نے ٹھٹھہ میں ایک نیا شہر میرپور ساکرو بھی آباد کیا۔ میر نمکین اورمیر خان کی قبریں آج بھی محفوظ ہیں اور ن کے کتبے نستعلیق فارسی میں لکھے گئے ہیں۔
مسجد میں نمازِ ظہرادا کرنے کے بعد قافلہ ڈی سی ٹھٹھہ کے کانفرنس روم میںپہنچا، جسے مقامی زبان میں ”دربار ہال“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں ملٹی میڈیاپرٹھٹھہ کے بارے میںایک بریفنگ دی گئی، جس سے اندازہ ہوا کہ اس علاقے میں تعلیم کی بہت کمی ہے۔ یہاں نیچرل تباہ کاری کے کئی سامان موجود ہیں جن میں سیلاب ، میٹھے پانی کی کمی، وسائل کی کمی اور جاگیرداری نظام کی مضبوطی قابلِ ذکر ہیں۔ دربار ہال کی ضیافت کے بعد اب ہم کینجھر جھیل کی سمت روانہ تھے۔ بے آباد،سُنسان ، گرمی اور لوکی شدت سے اجڑی ہوئی سڑکوں پر دورتک کوئی دوسری سواری دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ جھیل سے ذرا پہلے سلیٹی آسمان سے بارش کے چند موٹے موٹے قطرے ونڈ سکرین پرپڑے اورپھر سورج زیادہ زور شور سے نمودار ہوگیا۔ تین بجے کے قریب ہم جھیل کے ریسٹ ہاو¿س پرپہنچے تو لگا جنت میں آگئے ہیں۔ گل مہر کے درختوں سے ڈھانپے ہوئے کنارے والی سبزجھیل تین اطراف میں بہہ رہی تھی۔ یہاں علاقہ ناظم ہمارے استقبال کو موجود تھے۔ سارے وفد کو اجرکیں اوڑھائی گئیں۔ آغا صاحب نے فرداً فرداً تعارف کرایا۔ علاقہ ناظم کے ہمراہ کچھ دوسرے معززین بھی موجود تھے۔پلہ مچھلی، بریانی، ٹماٹر گوشت اور دیگر کھانے کی ڈشیں میز پر چنی جاچکی تھےں۔ سب کھانے کی لذت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جھیل کا نظارہ کیا گیا۔ مقامی گائیڈ اس جھیل کے اندر بنے مقبرے سے وابستہ ایک لوک داستان بیان کرتا رہا۔ یہ داستان سمہ خاندان کے مشہور حاکم ” جام تماچی“ کے گرد گھومتی ہے، جس کا پایہ¿ تخت ٹھٹھہ تھا۔کینجھر کے گرد مچھیروں کی ایک بستی تھی۔ نوری ایک مچھیرے کی خوبصورت بیٹی تھی۔ جام اس کی محبت میں مبتلا ہوگیا اور مچھیرے سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا۔ اس رشتے کے عوض یہ جھیل تماچی نے نوری کے باپ کینجھر کے نام کردی۔ نوری بیاہ کرمحل میں آئی اور دوسری رانیوں کے ساتھ رہنے لگی۔ لیکن وہ اپنی اصلیت نہ بھولی۔ کبھی کبھار جام مورچھل لے کر نوری پرجھلتا تو نوری سراپا التجابن جاتی اور کہتی۔ ”سرتاج میںایک ادنیٰ سی مچھیرن ہوں ، مچھلی کی بومیرے پورے وجود میں رچی بسی ہے جو محل کا عطرو عنبر لگا نے سے بھی نہیں جاتی، آپ مجھے پنکھا جھل کر شرمسار نہ کریں “۔ جام کہتا۔ ” یہ عجزو نیاز ہی تراحسن اور تیری اداہے“۔ آہستہ آہستہ دوسری رانیاں اس سے حسد کرنے لگیں اور جام سے اس محبت کے لئے استفسار کرنے لگیں۔ ایک دن اس نے اپنی رانیوں کو کہلا بھیجا کہ وہ تیار ہوکر بیٹھیں جو اس دن سب سے خوبصورت لگے گی وہ اسے سیر کرانے لے جائے گا۔ جام کا پیغام سُن کر سب سجنے سنورنے لگیں ،لیکن نوری نے اس دن اپنا مچھیروں والا وہ لباس پہنا جس میں تماچی نے اُسے پہلی بار دیکھا تھا۔ جام جو نہی محل میں داخل ہوا، رانیاں اُسے طرح طرح کے تحائف دینے لگیں۔ نوری نے اسے کینجھر جھیل کا کنول پیش کیا۔ اس کی یہ ادا جام کو بھاگئی۔ اس نے نوری کو مہارانی کا رتبہ دیا۔ موت کے بعد نوری اور جام تماچی کے مقبرے اسی جھیل میں بنائے گئے۔ لطیف بھٹائی نے اس لوک داستان کو اپنے ایک سر میں بھی قلمبند کیا ہے۔جھیل کو دیکھ کر ہمیںلگ رہا تھا۔
” نیچے پانی، اوپر درختوں کا سایہ اور جھیل کے کنارے درختوں کی قطار تماچی کی کشتی جھیل میں آجارہی ہے۔شمال کی ہوا چلتی ہے تو کینجھر جھیل جھولے کی طرح جھولنے لگتی ہے“۔ یہی جام چل کر بھٹائی کے ہاں وحد ت کی شکل اختیار کرتا ہے
نہ ہی کسی نے جام کو جنم دیا اور نہ ہی جام سے کسی نے جنم لیا
چھوٹی ہو یا بڑی مچھیرن سب کو وہ اپنا تا ہے
” لم یلد ولم یولد“ یہی انصاف اورنجات ہے
جام تماچی کا تخت بڑی شان اور دبدبے والا ہے“
دریائے وحدت و محبت کا جام پی کراب ہم سندھ یونیورسٹی جامشورو کے گیسٹ ہاو¿س کی طرف روانہ ہوئے۔ چھ بجے سندھ میوزیم حیدرآباد پر ایک نگاہ ڈالی ، مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ نظر کے چوکھٹے کی بھی ایک فریکونسی ہوتی ہے اور یاد داشت بھی ایک حد تک ہی بدلتے مناظر کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ کئی کمروں پر مشتمل میوزیم کا دور کھلا پڑا تھا۔ حیدرآباد ریاست کے مہان کلاونت ، قبل از تاریخ برتن ، زیورات ، زمانہ بہ زمانہ بدلتے ہوئے لباس، مہاراجوں ، انگریزوں ، حکمرانوں کے مخصوص ڈیزائن کئے گئے خلعت، سندھ کے شعرائ، ادیب، گائک،کھدائی کے دوران حاصل کئے گئے نوادرات، قائد اعظم کے مجسمے ،حیدرآبادی مسلم کلچر کا سازو سامان ، مساجد اورمندروں کے نمونے، کرنسی، دھات اورکانسی کی بنائی گئی اشیا ئ۔ کسی بھی عجائب گھر میںجوکچھ موجود ہوسکتا ہے یہاں سب کچھ ہے، لیکن وہ طاقت نہیں جو تاریخ کاپہیہ موڑ سکے۔
شام ہونے سے ذرا پہلے ہم اس عجائب گھر سے نکلے تو ہمارا اگلا ٹھکانہ سندھی لینگویج اتھارٹی کا دفتر تھا، جہاں چیئرپرسن ڈاکٹر فہمیدہ حسین اپنے عملے کے ہمراہ ہماری منتظر تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ہمیں سندھی ادیبوں سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پہلے تو ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل ظہیر الدین ملک اور اکادمی ادبیات سندھ کے سربراہ آغا نور محمدپٹھان نے فرداً فرد۱ً وفد کے اراکین کا تعارف کرایا، پھر اس دورے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ محبت اور خیرسگالی کے جذبات کے تبادلے کے بعد اجرک اوڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اہلِ سندھ کی یہ کلاسیکی روایت مہمان کی عزت افزائی کا انوکھا ڈھنگ رکھتی ہے۔ اس تقریب میں تقریباً پچاس ساٹھ ادیبوں نے شرکت کی۔ ادارے کی چیئر پرسن ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے اپنے ادارے کی کارگردگی پر روشنی ڈالی اور مہمانوں کو مقتدرہ سندھی کی کتابوں کے تحائف پیش کئے۔ مقررین کی زیادہ تعداد سندھی زبان کی ترویج سے متعلق اپنے خیالات اظہار کرتی رہی۔ ایک دونوجوانوں نے بعض مقامات پر اپنے ساتھ ہونے والے نار واسلوک کو سندھی زبان بولنے کی سزا متصور کیا۔ اس تقریب میںسندھی ادیبوں کے معمار اور بزرگ ادیب ابراہیم جویو ، غلام ربانی آگرو( سابق چیئر مین اکادمی ادبیات پاکستان) نے آنے والے وفد کے لئے خیر مقدمی کلمات ادا کئے۔ جناب غلام ربانی آگرو نے گذشتہ دس سالہ دور میں سندھی ادیبوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا شکوہ کیااور امید ظاہر کی کے موجودہ چیئر مین سے ہماری اچھی توقعات ہیں۔ انعام اللہ شیخ ،سابق سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ ، حمید سندھی اور سیکریٹری سندھی لینگویج اتھارٹی محترم تاج جویو نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پاکستانی ادیبوں کے صوبائی دور ے کو سراہا گیا اورچیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان محترم فخرزمان کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ وفدکے سینیئر ترین رکن کی حیثیت سے ڈاکٹر سلیم اختر نے سندھی ادیبوں کے والہانہ استقبال کا شکریہ ادا کیا اور اسی قسم کے بین الصوبائی رابطوں پر زور دیا۔ آخر میں ڈاکٹر فہمیدہ نے سب مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔
اچانک وقوع پذیر ہونے والی لوڈشیڈنگ کے باعث محفل جلد برخاست ہوگئی ،چنانچہ چائے کا اہتمام باہر لان میں رکھا گیا۔ ہمارے سرپر صدیوں سے حیدرآباد کی زمین پر جھکاہوا آسمان اپنے پرانے چاند کے ساتھ پھیلا ہوا تھا۔ بہت ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ سندھی اور دوسری زبانوں کے سب لکھنے والے ایک دوسرے سے یوں بات چیت میںمصروف تھے جیسے اجنبیت کا لفظ ہی ڈکشنری سے غائب ہوگیا ہو۔ رات سندھی مقتدرہ کی جانب سے ڈاکٹر فہمیدہ نے جیم خانہ حیدرآباد میں ایک پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کررکھا تھا جہاں نئے سِرے سے کچھ اور ادیبوں سے ملاقات ہوئی۔
ڈاکٹر فہمیدہ سندھی ، ارُدو اور انگریزی تینوں زبانوں کی ماہر ہیں۔ ان کی اٹھارہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ پچھلے برس ان کی ایک سندھی تخلیق پر اکادمی ادبیات پاکستان نے انہیں انعام سے نوازا۔ سندھی مقتدرہ کی ایک کتاب Sindhi Language، جسے سراج میمن نے سندھی میں لکھا اور اذاں بعدڈاکٹر امجد سراج نے انگریزی میں ترجمہ کیا، پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں سندھی زبان ، سندھی کلچر اور موئنجو دڑوکے عنوانات قائم کئے گئے ہیں۔یہ کتاب سندھ سے آگہی کے لئے ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ کھانے کی میز پر حیدرآباد اور اس کے بادشاہی نظام سے متعلق بڑی تاریخی گفتگو ہوتی رہی۔ فوجی کلچر اور نوابی کلچر کا امتزاج یہ جیم خانہ اپنی عمارت میں کہیں نہ کہیں پرانا پن رکھتا ہے۔ شاید اپنی نیم خواب روشنیوں میں یا سبزے کے اس شیڈمیں جو چاندنی رات کے سائے میں کچھ زیادہ ہی پراسرار لگ رہاتھا۔
رات ایک بجے جامشورو یونیورسٹی گیسٹ ہاو¿س پہنچے ، گرمی شدید، پانی گرم ، تھکے ہوئے جسم ، اجنبی جگہ۔ سکون پہنچانے کےلئے ایئرکنڈیشنر بھی کوئی مدد نہ کرسکا۔ تمام رات آنکھوں کے سامنے مکلی کا قبرستان اور دوسری ارواح پھرتی رہیں۔ باربار جھٹکے سے نیند ٹوٹ جاتی ۔آسیہ نے اقبال کے دو مصرعے پڑھے
کون سی وادی میںہے ،کون سے منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا ، قافلہء سخت جاں
٭٭
۲۱جون ۹۰۰۲ کی صبح ناشتے کی میز پر بیٹھے تمام اہل سفر کے چہرے گذرے دن کی تھکن اور گرم رات کی مہربانی سے اُترے ہوئے تھے۔ تاہم جامشورو ریسٹ ہاو¿س کے پر اٹھے اور آملیٹ بہت اچھے لگے۔ پنجاب میں ایسا پھولا ہوا نرم پراٹھا کبھی نظر سے نہیں گذرا۔ آج سب سے پہلے وائس چانسلر محترم مظہر الحق صدیقی سے ملاقات رکھی گئی تھی۔ سب اراکین جلدی جلدی تیار ہوئے۔ دس بجے پھولوں سے سجے ہوئے زینے کے ذریعے دوسری منزل پہ پہنچے۔ کمرہ¿ ملاقات میں قائد اعظم کے ساتھ ساتھ بے نظیر کی بھی ایک خوبصورت تصویر نظر آئی۔ شاید یونیورسٹی کے کسی دورے کے دوران بنائی گئی تھی۔ اپریل ۷۴۹۱ میں بننے والی یہ یونیورسٹی اب تک کئی وائس چانسلر دیکھ چکی ہے۔ محترم وائس چانسلر دوسرے کئی اہم ترین حکومتی عہدوں سے سبکدوشی کے بعد اس یونیورسٹی کے انتظام وانصرام کے لئے منتخب کئے گئے ہیں۔ ان کا مہربان، شفیق اور شائستہ لب و لہجہ اپنے ادارے سے محبت اور اس پر فخر اورہمارا حوصلہ بڑھارہاتھا۔ جام شورو یونیورسٹی میں اس وقت باون فیکلیٹز ہیں۔ تین ہزار رہائشی طلبا ہیں۔ یونیورسٹی کئی جید عالم اور مشاہیر پیدا کرچکی ہے۔ وائس چانسلر بھی اس کے قدیم طالب علم ہیں۔ اسی برسی کی عمر میں بھی چاق وچوبند۔دیگر ادبی و علمی اور سیاسی رحجانات پر گفتگو کرنے اور چائے کے بعد ہمارے میرِ کارواں نے رخصت چاہی۔ میرے ہاتھ میں فیض محمد کھوسو کی کتاب تھمادی۔ "Selected Verses from Shah jo Risalo"۔جس کا پیش نامہ ڈاکٹر مظہرالحق صدیقی نے لکھا ہے۔ یہ کتاب سندھیا اکادمی نے ۹۰۰۲ءمیں شائع کی ہے۔ اسے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میںترجمہ کیا گیا ہے۔
اب ہم جام شورو و یونیورسٹی کے سندھیالوجی انسٹیٹیوٹ میں ہیں، جس کے ڈائریکٹرسندھی کے نامور افسانہ نگار شوکت حسین شورو ہیں، جو خود بھی نامور افسانہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ تمام کمرہ سندھی کی نئی پرانی تخلیقات سے اٹاہے۔ ریسیپشن شروع ہوئی، آغا صاحب مہمانوں کا تعارف کرارہے ہیں۔ یہ ڈاکٹرسلیم اختر ہیں، وفد کے سینئر ترین ممبر۔ان کی اب تک اسی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ سرگودھا سے ڈاکٹر طاہر تونسوی۔ اردو ، سرائیکی ،پنجابی کے سکالر۔ یہ بلوچستان سے ظفر علی ظفر۔ یہ لاہور سے معروف فلسفی قاضی جاوید۔ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر۔ یہ اعزاز احمد آذر۔پنجابی اردو کے شاعر ، ریڈیو ٹیلی ویژن کے معروف اینکرپرسن۔ یہ اسلام آباد کے ڈاکٹر رشید امجد، نمل یونیورسٹی کے اُستاد، علامتی افسانے کے قلمکار ، محقق ۔یہ پشاور سے پشتو زبان کے ترقی پسند شاعر سلیم راز۔ یہ اسلام آباد سے ڈاکٹر احسان اکبر۔ اقبالیات کے ماہر، اردو پنجابی کے معروف شاعر اور یہ گجرات سے ڈاکٹر شاہین مفتی، شاعرہ، تنقیدنگار، ریسرچ اسکالر۔ یہ خالد اقبال یاسر، معروف شاعر، سہ ماہی ادبیات کے چیف ایڈیٹر اور اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل۔ اور یہ اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر جنرل دوم جناب ظہیرالدین ملک۔ سخن شناس ، ادب پرور ۔ پروفیسرشوکت حسین شوروکی جانب سے اپنے شعبے کا تعارف شروع ہوااور اسی اثنا ءمیں سندھی ادب کی معروف قلمکار ڈاکٹر سحرامداد بھی تشریف لے آئی ہیں۔ اجرکیں پہنائی جارہی ہیں۔ محبت اور مسکراہٹ کا تبادلہ جاری ہے۔ اچانک میز کے درمیان رکھا گیا ڈبہ چاکلیٹی کیک میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اجرک پھیل کر تحفظ کا سائبان بن گئی ہے۔ چائے پی جارہی ہے اور مقامی زبانوں کی ترویج کے ساتھ ساتھ انہیں قومی دھارے سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، اب صوبوں میں بولی جانے والی زبانیں قومی زبانوں کا درجہ اختیار کر گئی ہیں اور ہرلکھنے والا اپنے تشخص اورمقام کے بارے میںپہلے سے زیادہ نازک ہوتا چلا جارہا ہے۔
وقت آن پہنچا ہے کہ ہم سندھیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام چلنے والے میوزم کا نظارہ کریں ، یونیورسٹیوں کی سطح پر یہ میوزیم ایک بے مثال کوشش ہے، اسکی پہلی جھلک میں سندھی لوک رنگ نمایا ںہے، منقش درودیوار سے گذر کر آپ میوزیم میں داخل ہوجائےے اس کی پہلی منزل پرکئی ہال پورے سندھ کی تہذیب و تاریخ، زبان اور مذہب کا احاطہ کررہے یں ہمیں مین انٹرنس Internceسے اس درواز ے تک لےجایا گیا جو اس ہال میں کھلتا ہے جہاں مختلف سندھی ماڈل سندھ کی تہذیبی زندگی کا نمونہ پیش کررہے ہیں شادی بیاہ کی تقریب میں بنی سنوری لڑکیاں بیٹھی ڈھولک بجارہی ہیں چھت کے ایک بسرے پرکوئی بیٹھے ہیں، دوسری جانب کبوتر کا سے جھانک رہے ہیں،کچھ دورسے بنی سنوری لڑکیوں کو دیکھ رہے ہیں ایک مقام پر عورت اور مرد گارے سے دیوار کی لپائی میں مصروف ہیں کہیںپیرا بین بجا کر سانپ کورام کرنے کی کوشش کررہا ہے ، کہیں سندھی لڑکی کڑھائی سلائی میںمصروف ہے، کہیں وڈیرا ہاری کوکوڑے ماررہا ہے ، کہیں میاں بیوی گھریلو فضامیں چائے کے مزے لوٹ رہے ہیں،جیتی جاگتی ثقافت کے یہ نمونے اس سے پہلے میں اسلام آباد کے لوک ورثہ میں دیکھ چکی ہوں لیکن اس کمرے کی مدھیر روشنیوں میں یہ سب اور ہی نظارہ پیش کررہے ہیں اگلے ہال میں جی ایم سید کے مجسمے اور ان کے لباسوں کی نمائش ہے، یہیں ایک حصہ قائداعظم کےلئے محفوظ ہے، جام شورو یونیورسٹی کے وائس چانسلرز اور دانشوروں کے مجسمے اور تصاویر ہیں۔ سندھی ادب کے شاعر، گویے ، مصور ، کلاکار اور خواتین قلمکاروں کی بھی تصویریں آویزاں ہیں ایک حصے میں سندھیالوجی کی مختلف شائع شدہ کتب موجود ہیں۔سندھی لباس،برتن ، کرنسی دیکھتے دیکھتے بائیں جانب بڑھتے جائیے ایک بڑا ھال بھٹو شہید خاندان کے لئے مخصوص ہے،یہ ہال بھٹوخاندان کے اعزازات گھریلو برتنوں ، ملبوسات ، تصاویر اور تاریخ سے سجا ہوا ہے، محترمہ بے نظیر نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی قیمتی تصاویر ، اثاثہ جات اور یادگاریں اس ڈیپارٹمنٹ کو عطیہ کی تھیں اور اس ہال کی تزئین آرائش کے لئے کچھ رقم بھی دی تھی ۔شاید اس لحمے وہ اسے اپنے والد کی زندگی کو محفوظ کرنے کی جگہ سمجھ رہی تھیںلیکن اب یہ کمرہ افسوس کا گھر ہے ، مقبولیت اور موت کیسے ہاتھ میںہاتھ ڈال کرچلتی ہیں اس کارنگ یہاں دکھائی دیتاہے، بے نظیر کی تصاویر کو جزوی طورپر دیکھتے دیکھتے سید کاشف رضا کی نظم ” ایک اسا طِری عورت “ ذہن میں چمکنے لگی
جس روز اُسے ماردیا گیا
مجھے اُسے سوچتے ہوئے
بائیس سال ہوچکے تھے
ایسا ان عورتوں کےلئے نہیںکہا جاسکتا
جو ہمیں مطمئن کردیتی ہیں
یا مایوس
اس کے بھائی مار دئیے گئے
ماں کی یاد داشت چھین لی گئی
باپ کو پھانسی دے دی گئی
اس سب کے بعد
کوئی بھی عورت
اسا طر میں جگہ بنا سکتی تھی
لیکن اس نے اپنی کہانی بھی بنائی
اس کہانی میںقید تھی
اور عاشقوں کے جلوس تھے
اور اکیس توپوں کی سلامیاں تھیں
لیکن اسے محبت کےلئے
خود سے بڑے قد کا مرد نہ ملا
اس کاملک دوبار اغوا ہوا
اور وہ دوبار
اسٹاک ہام سنڈروم سے گذری
اساطر سے نکل کر
وہ کچن میں چلی جاتی تھی
جہاںلوگوںنے اسے
شور بے میں روٹی ڈبو کر کھاتے دیکھا تھا
کام کاج میں غرق
وہ ایک سادہ عورت بھی ہوسکتی تھی
اگر اسے
اس کے خاندان سے ملوث نہ کردیا جاتا
اس نے دس برس تک
جس نشانے کی مشق کی
وہ ٹھیک اس کے سر کے آرپار ہوا
اس کی ساری زندگی
اس چوک کی طرف سفر میں گذری
جہاں اسے مار دیا جاتا تھا۔
کاش سندھیالوجی والے اس کمرے کو بھی بھٹو، بے نظیراور انکے عزیز و اقارب کے ماڈلز سے سجانے کی کوشش کریں ، اس میوزیم کی قدروقیمت میں اضافہ ہوگا، اس میوزیم کو اس کے نوادارات کی وجہ سے یونسیف، اور کئی غیر ملکی این جی اوزکا تعاون حاصل ہے مجھے سندھی ادبی بورڈ کی شائع شدہ کتاب فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ یاد آگئی ، جس کا ترجمہ اختر رضوی نے کیا ہے اب تک اس کتاب کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ،تاریخ کی تباہکاریاں دیکھنی ہوں تو یہ کتاب ضرور پڑھئے اب تک اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ، سندھی ادبی بورڈ کے اس وقت کے سیکریٹری الھڈتو وگھیو نے نے اس کتاب کی نئی سرسے اشاعت کرکے سندھی تہذیب و تاریخ کو چارچاند لگائے ہیں ، شیخ ایاز یاد آگئے
اے سارترے اگر تم یہاں پیدا ہوتے ایک سندھی کے گھرانے میں
اورپھر میری طرح وجودیت کا فلسفہ اپنی زندگی میں اپنا تے۔۔۔۔۔۔
تو تمیں حقیقت کا پتہ چل جاتا مغرب مشرق کا مقابلہ نہیں کرسکتا
تم نے اپنی ترازو کے پلڑے میںبہت سی آزادی بغیر تولے ڈالدی
اور اپنی دکان کو چمکالیا یہاں تو آزادی کا نام لیتے ہیں
تو سروسامان اور گھربار کو آگ لگ جاتی ہے۔
سارترے ۔ میں تو سمجھتاہوں کہ وہی انسان بڑا ہے
جو خود آگ سے اشنان کرکے تزوتازہ ہوکر نکلتا ہے اے گرو۔
تمہارا گیان بے کار ہے تم تو اوروں کو اس آگ سے اشنان کرنے پر اُکسارہے ہو۔
شیخ ایاز کے منتخب سندھی کلام کا منظوم ترجمہ فہمیدہ ریاض نے ” حلقہ میری زنجیرکا “ کے نام سے کیا ہے ، اس کتاب کو انسیٹیوٹ آف سندھیالوجی ،سندھ یونیورسٹی جام شورو نے ۹۷۹۱ءمیں شائع کیا تھا، اس کتاب کی اشاعت کے اخراجات پاکستان کی وزارتِ تعلیم و ثقافتی امور نے برداشت کئے اب ہمارا قافلہ سندھی زبان کے ایک اور معتبر ادارہ کی جانب رواں رواں ہے ۔ سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق ہیں اور نائب چئیرمین شیخ عزیز ہیں اور، حمید سندھی ، آغا سلیم ، تاجو جویو، پروانو بھٹی، امداد حسینی، سحرامداد، زوار نقوی(سیکریٹری اپنے بہت سے احباب کے ساتھ ہمارے منتظر تھے، سندھی ادبی بورڈ اب تک پانچ لاکھ صفحات سندھی زبان وادب پر شائع کرچکا ہے"Melodies of Shah Abdul Lateef Bhitai"کی ایک جلد میرے ہاتھ میں ہے اردو اور انگریزی ترجمہ خوبصورت شخص آغا سلیم نے کیا ہے اور یہ کتاب سندھ ادبی بورڈ کی جانب سے ۵۰۰۲ میں شائع ہوئی ، ریسپشن ، تعارف اور اجرک کی رسم کے بعد کچھ کہنے اور سننے کا سلسلہ شروع ہواہے کمرہ کھچا کھچ سندھی ادیبوں سے بھرا پڑا ہے، سندھی ادیبوں کا دل کسی جگہ بہت دکھا ہے یا وہ اپنے تشخص کے بارے میںبہت بے چین اور جلدی میں ہیں ، اکیڈمی آف لیٹرز کے ڈائریکٹر جنرل سے اپنی کتھا کہانی سنائی اورنفیس احمد ناشادایڈیٹر مہران سندھی ادبی بورد کی کارکردگی اور تاریخ بیان کررہے ہیں، حمید سندھی نےہایت معقولیت کے ساتھ اپنے خوبصورت لب ولہجے میںانگریزی ، اردو ، سندھی ملی تقریر کی ہے، اسی طرح باقی حضرات نے بھی گفتگو میںا پنا حصہ ڈالا ہے، انہی میں ایک شخص امداد حسینی بیتھا ہے، سندھی کا جدید مزاحمتی شاعر، حلیئے سے کچھ کچھ جون ایلیا کے قریب ، خیالات میں توان سے ذاراآگے اپنی نظم سنارے ہیں،
سندھ ایسا تو نہیں تھا۔
کہ لگے پیاس تو پینے کےلئے پیاسے کو پانی نہ ملے سندھ ایسا تو نہیں تھا۔
کہ لگے بھوک تو کھانے کے لئے بھوکے کو مانی نہ ملے کوئی پر یون کی کہانی نہ ملے۔
سندھی زبان کے ممتاز شاعر سید امداد حسینی بچوں کے لئے ادب تخلیق کرتے ہیں ریڈیو اور ٹی وی پر پروگرام کرتے ہیں، ان کی تین کتابیں ہوا کے سامنے،شہر آشوب اور امداد ایک بنجارہ سندھی میںلکھی ہوئی ہیں، امداد حسینی کی بیگم ڈاکٹر سحرامداد حسینی بھی سندھی ادبی بورڈ سے وابستہ ہیں، سحرنے سندھی میں ” جدید سندھی شاعری ایک نیا کلاسیک“ کے نام سے ڈاکٹریٹ کی ہے، ڈاکٹر سحرکی نئی کتاب شعور، شعر اور شاعری کو مقتدرہ سندھی زبان(Sindhi Language Athority) نے ۸۰۰۲ءمیںادبی انعام سے نوازا ہے، اس کتاب کا دیباچہ سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ سید زوار نقوی کا لکھاہوا ہے، کتاب کا انتساب بے نظیر کے نام ہے، بورڈ کی اس تقریب میںپشاور کے سلیم راز نے اپنے علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کی جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھنے والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بھی اپنی تحریروں میں اس معاملے کو نوٹس لیں آگہی اور برادشت کے پیغام کےساتھ ہم سب ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تاج جویو جام شورو حیدرآباد کے سفر میںہمارے ہمراہ رہے شہر کی سڑکوں سے ہماری سواری گذر رہی تھی، درد دیوار بے نظیر کی کی تصویروں اور نعروں سے اٹے پڑے تھے، اس کے ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو ، حال میں صدر زارداری اور مستقبل میں بلاول بھٹو کے چہرے جگمگار ہے تھے، سیاہ آسمان تلے گرمیوں کی گہری دوپہر بیٹھی ہونک رہی تھی، گیسٹ ہاو¿س سے ذرا پہلے شیخ ایاز کی نظم راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔
©اے دھویں کے بالوں والی اگنی، اے میری کویتا
کیا آج تک کسی نے تیرے مکھڑے سے لٹیس ہٹاکر تجھے دیکھاہے؟
ایک سوال پہ ختم ہوتی کویتا مجھے ذرادیر پہلے سنائی گئی سحرامداد کی نظم ”مہران “ تک لے گئی
حقیقت ہے یہ افسانہ نہیںہے
کہ میٹھے پانیوں کے ساحلوں پر
جنم لیتی ہیں تہذیبیں
یہی تاریخ کے پنوں پہ لکھا ہے
اسی تاریخ کی دھارا پہ بیتا، گرجتا ، شورکرتا
ناچتا اور گنگنا تا جھومتا دریا
جسے مہران کہتے ہیں
کہ میٹھے پانیوں کا جوسمندر تھا
کہ سارا سال جو بدمست ہاتھی کی طرح چنگھاڑتا تھا
اُسی مہران کا اب حال ایسا ہے
بڑا سوکھا پڑا ہے اب کے دیکھو سال کیسا ہے
کہ ساگر ریت کا مہران میں اب بہتا رہتا ہے
اجاڑ آنکھوں سے ہمکو کہتارہتا ہے
فقط پانی کے دھاروں پررواں رہتی ہے کشتی زندگانی کی اورمیٹھے پانیوں کے ساحلوں پر جنم لیتی ہیں تہذیبیں حقیقیت ہے یہ افسانہ نہیں ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے اگر پانی نہ ہو مرتی ہیں تہذیبیں
اسی مرتی ہوئی تہذیب کے ہم ادھ مرے باسی
فقط اک بوند پانی کو ترستے ہیں
نہ آنکھوں میں ہے ساون اور نہ بادل برستے ہیں
حقیقت ہے یہ افسانہ نہیں ہے۔
بہت برس پہلے طارق محمود کا ایک ناول ©” اللہ میگھ دے“
اسی قسم کے کال میںلکھا گیا تھا ، قحط اور خشک سالی کے موسم میں امجد اسلام امجد کی ایک نظم توجہ طلب ہے۔
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا“
ان دنوں ہم اسی دریا کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، سندھ کا آسمان ہم پر مہربان تھا ایک میلا اور گدلا سا بادل کا سایہ سورج کے چہرے پر پڑا رہتا اور ہم میلوں سفر کرتے رہتے کھانے کے بعد ذرا سا وقفہ اور پھر اگلے سفر کی تیاری ، اُس دن جونہی ہم گیسٹ ہاو¿س سے ذرا فاصلے پر پہنچے فلائنگ کوچ کا اے سی جواب دے گیا ،حبَس اور بدن کو چیر کر گذرنے والی ہوا نے سب کو حواس باختہ کردیاچنانچہ طے پایا کہ اگلا سفر موٹرگاڑیوں پر کیا جائے گا ، ہمارے والی گاڑی میں ڈائریکٹر جنرل ظہیرالدین ملک اور ڈاکٹر احسان اکبرہمارے ہمسفر تھے، ” ہوا سے بات کرو“ احمدندیم قاسمی ایوارڈ کے شاعر احسان اکبرتمام راستے ائیرفورس میں ملازمت کرنے والے اپنے جوان بیٹے گروپ کیپٹن شہریار کو یاد کرتے رہے جوجنگی مشقوں کے دوران شہید ہوگیا تھا ، بوڑھے باپ کے دل میں نوجوان بیٹے کی یاد اور آنکھوں میں آنسو ، ماحول یک دم اُداس ہوگیا یہ یاد بھی اپنے کئی رنگ رکھتی ہے۔ اچھے دنوں کی یاد ہمارے لہو میں روشنی بن کر دوڑتی ہے اور غم کا تذکرہ چہرے کے چراغ سے روشنی چھین لیتا ہے، اس لمحے میں بھی اپنے پیاروں کی جدائی ہی سے گذررہی یادوں نے مل جل کر گھیراو¿ کیا تو روح میں موت کا سناٹا پھیل گیا۔
خالی ہاتھ شام آئی ہے خالی ہاتھ جائے گی۔
دور کہیں ٹریفک کے ہلکے سے شور میںکسی دوسری گاڑی سے ابھرنے والی لتا منگیشکرکی آواز دشتِ خیال سے چپک کررہ گئی، جدائی اور یاد کا چیونگم ہلکے ہلکے بے مزہ ہورہا تھا۔ گم ہوجانا ، خالی ہاتھ رہ جانا، اپنے آپ میں سمٹ جانا۔ یہ بھی عجیب تجربہ ہے جیسے کوئی اپنے حصِار میں اپنے آپ سے چھپ کر بیٹھ جائے ،غار میں مراقبے کا تجربہ بھی ایسا ہی ہوگا، اب کسی کو پڑی ہے کہ وہ آپ کو دریافت کرتا پھرے ،ہر ذات شریف اپنی جگہ ایک امریکہ ہے اور اپنے اپنے کولمس کی منتظر ،تاریخ انسانی کی یہ خوش خیالی ہمیشہ قائم و دائم رہے گی،
اپنے اپنے دریافت کنندہ اور نجات دھندہ کا انتظار ،
گاڑی ہلکے ہلکے ہچکو لے کھارہی تھی،
نجاتِ دھند و دل کی گھڑی خدا جانے کس مقام پر ٹھہری ہوئی تھی
اور ادھرہم سب مستانہ طے کرے ہوں رہِ وادیءخیال
تابازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے
کی تفسیر بنے تھے ویران راستہ دیکھ کر خیال ایک دن پہلے دیکھی ہوئی کلری جھیل کی طرف مڑگیا، نہ پانی، نہ مچھلی، نہ مچھیرے ، ٹوٹی پھوٹی بے رنگ کشیتوں میںننگے آسمان تلے ننگ دھڑنگ بچے اور چند میلی کچیلی عورتیں ، آغا نورمحمدپٹھان نے نوحہ کرتی آواز میں کہا” پانی نہیں ہے“ مجھے پھر امداد حسینی یاد آئے
سندھ ایسا تو نہیں تھا
کہ کڑی دھوپ میںراہی کو شجر سایہ نہ دے
صبح دم بادِ صبالے نہ حرام
اور بہار آئے تو ایسالگے اس سے خزاں بہتر تھی
اور اگر یاد کرے کوئی تو ہچکی نہ لگے سندھ ایسا تو نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاہ ریتلے راستے دائیں جانب مڑگئے ہیں، سنگلاخ پستہ قد پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ہم رنی کوٹ جارہے ہیں۔ہمارے ساتھ اس وقت کوئی مقامی گائیڈ نہیں چنانچہ معلومات کا بوجھ سارا ڈرائیورپر ڈال دیا گیا ہے وہ خود بھی کراچی کے علاقے میں روزگار نہ ملنے پر حیدرآباد آیاہے اس لئے کچھ نہیں جانتا ، پہاڑی علاقے کی ہیبت ، دور تک آدم نہ آدم زاد ، منزل بے نشان سورج بس غروب ہونے ہی والا ہے، عجیب ساسفر ہے، اچانک ایک ویران قلعے کی میلوں تک پھیلی ہوئی ہلکے ہلدی رنگ کی فصیل دکھائی دینے لگی ہے، بے چہرہ اور سنگدل فصیلیں انسانی امکانات کے سب دروازے بند کردیتی ہیں، مجھے خواب میں دیکھے ایسے کئی قلعے یاد آنے لگے ہیں اور ساتھ ہی شیخ ایاز
اس دیس پہ یرقاں چھائی ہے
ہر شام یہاںپیلی پیلی
اور اس کی کالی کاںکاں میں
کیا وحشت کیا تہنائی ہے
اس دھرتی پر اک دیو پھرے
یوں جس نے خاک اڑائی ہے
کوئی جھلکی نہیں جھرد کے میں
کیسی ہیبت چھائی ہے
میلا اور کٹا ہوا سورج ہمارے عقب میں کسی سنگلاخ پہاڑ کے پیچھے چھپ گیا ہے، گائیڈ اپنے مکمل ایقان کے ساتھ اس بے آباد ویرانے کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈال رہا ہے، چٹیل ، پستہ قد ، بے رحم پہاڑ غور سے اس کی بات سُن رہے ہیں ، قلعے کی فصیل ، اس کے باریک جھرو کے ہمیں اپنی جانب بلارہے ہیں، کھردرے راستوں پر گاڑی کے ٹائروں کے ٹکرانے کی آواز ارتعاش پید ا کر کے خوف کے تاثر کو دوبالا کر رہی ہے، ترائی میں پتھروں کا سلسلہ دُور تک پھیلاہواہے، شاید شدید بارشوں میں اس راستے کی پیاس بجھتی ہو، یہاں پانی کو روک کر اچھا خاصا ذخیرہ جمع کیا جاسکتاہے لیکن اس قسم کے کام انسانی آبادی کا مزید سامان مہیا کر سکتے ہیں ذرا بلندی پر پہنچنے کے بعد احساس ہوتاہے نیچے ایک وادی کا سماں ہے۔ کہیں کہیں مٹی اور پتھروں کے گھروں سے ہلکا سا دھواں اٹھ رہاہے ، بکریاں قلانچیں بھرتی پھررہی ہیں، علاقے کے ڈپٹی ڈی اور(DDO)ارباب عطاءاللہ نے دشوار راستوں سے آگے ایک کھلے صحن میں جسے تین جانب سے پہاڑی دیواروں نے گھیر رکھاہے، شاندار چائے کااہتمام کررکھا ہے ،یہ رنی کوٹ کا ریسٹ ہاو¿س ہے دویاتین کمرون پرمشتمل کچھ سیڑھیاں اتر کر باورچی خانہ اور برداشت خانہ بنایا گیا ہے، درمیان میںپتھر کا ایک فرش ہے جس سے ذرافاصلے پر کچھ پتھریلے کمرے عرصے سے زمیں بوس ہوچکے ہیں ، اعزاز احمد آذر فوٹو گرافر حلیم اور ضلعی حکومت کے کچھ اہل کاروں کے ساتھ فصیل کی عقبی ریگذار کا طویل چکر لگاکر بڑی گرم جوشی سے واپس لوٹے ہیں،احسان اکبر عین میدان میں نماز کے سجدے دے رہے ہیں کون جانتا ہے یہ جگہ کبھی ہندوتھی یا زرتشتوں کی عبادت گاہ ، بدھ مت والے یہاں ننگے قدموں چلتے تھے یا بادشاھ اسی میدان میںاپنا حکم نہ ماننے والوں کو کوڑے مارا کرتے تھے۔ آج یہاں فقط خداکی ذات تھی اور ایک بندہءخدا کی جھکی ہوئی پیشانی، ہر سو فطری ، خاموشی ۔
اُداس اور عاجز شام زیادہ گہری ہوئی تو ہم یہاں سے روانہ ہوئے، آزاد ہوا اور ان چھوٹی خاموشی کی راجدھانی سے مزید پانچ میل کے فاصلے پرمیری کوٹ ہے، کیا خبریہ میری ” میر“ کامخفف اوررانی یا رن کا کوٹ ہوسکتا ہے سندھی زبان میں اس کا مطلب کیا ہے یہ تو یہاں کے لوگ ہی خوب سمجھتے ہوں گے لیکن تاریخ ابھی تک اس سلسلے میں ابھی تک خاموش ہے ۔ کوٹ کالفظ ملا وجہی نے اپنی کتاب ” سب رس“ میں گاو¿ں ، علاقے ، شہر اور قلعے کے لئے استعمال کیا ہے، ادھر پنجاب میں ”سیال کوٹ“ سیالوں کے شہر کے طورجانا جاتا ہے شاید واپسی پرایک تہناآدمی بکریوں کے ریوڑ کوہنکا ئے لئے جارہا ہے شاید اقبال نے کبھی اسی کے لئے کہا تھا۔
ہو تیرے بیابان کی ہوا تجھ کو گوارا
وادی بھی تمہاری ہے یہ پربت بھی تمہارا
شامِ غرماکا گجر بج چکا تھا ، راستہ طویل تھا اور ہمیں سہیوں شریف پہنچ کرحضرت شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینی تھی ، تاریخ سندھ چچ نامہ کے فارسی مترجم علی کوفی کا کہنا ہے کہ بہت سے علماءمنگولوں کے حملے کے خوف سے اپنا وطن چھوڑ کر امن کی تلاش میں ہندوستان چلے آئے ، جسطرح بابا فرید شکر گنج کے اباو¿اجداد ہجرت کرکے ہندوستان کے مقام اُچ شریف میں تمکن ہوئے اسی طرح قلندر لعل شہباز بھی اپناآبائی علاقہ ”مَرَند“ ، چھوڑ کر پہلے ملتان آئے اورپرھ سیہون میں سکونت پذیر ہوئے، سلطنت سندھ جو مغلوں کے دور میں سات صوبوں میں تقسیم کی گئی تھی سیہوں اس کا خاص مقام اور دریائی بندرگاہ تھا، آج کا سیہون شریف غالباً سندھ کا سب سے قدیم شہر ہے جواب تک قدیم بوباس رکھتا ہے، سکندر اعظم نے بھی اس میں چھ ماہ قیام کیا اور قدیم قلعے کی مرمت کرائی ، برطانوی دور میں حکومت کی جانب سے شائع شدہ گزیٹیئرمیںلکھا ہے کہ ” مہابھارت“ کی جنگ میںسیہون اپنے عروج پرتھا ہم بھی جب دوگھنٹے کی گرم مسافت طے کرکے سیہون کی گلیوں میںپہنچے تو عجیب طرح کی مسرت کا احساس ہوا، حسینی لعل قلندر کے دربار کے لئے مرکزی سڑک سے ایک راستہ دائیں جانب مڑتا ہے اورپھر چند قدم پیدل چل کر دربار کی اصل حدود شروع ہوجاتی ہیں،رات کے نوبج چکے تھے دوکانین آراستہ اور راستے پیراستہ تھے، تبرکات، سندھی اجرکیں، سندھی ہنیڈی کرافٹ ، چھ فرلانگ پر پھیلا دورویہ بازار طرح طرح کی خوشبوو¿ں اور رنگارنگ دوپٹوں اور خوش قسمتی کے تصورات سے اٹا ہواہے، دربار کے صدر دروازے چھوٹی بڑی دیگیں لنگر کی ضرورت اور زائرین کی سخاوت کی خواہش پوری کرتی ہیں، ضلعی حکومت کے مکمل پروٹوکول کے ساتھ یہیں علاقے کے معززین اور مقامی ادبیوں اور دربار کے متولی نے ہمیں خوش آمدید کہا ، جو تے اتارنے کے بعد ایک چھوٹے صحن کی سیڑھیاں اتر کر ہم سخی شہباز قلندر کی خدمت میں حاضر ہوئے صبح قلندر طلوع ہوچکی تھی، مرد و زن کا ہجوم ، نوجوان خوبصورت، سجی سجائی عورتیں ، عبادت گار بزرگ ، طواف کرتے دھمال ڈھالتے جیالوں کا گروہ ، زنان خانے کی جانب کئی اہل خانہ اپنی نادار اولادوں کے ہمراہ سجدہ ریزی اور دعاو¿ں میں مصروف، علاقہ ناظم ، مزار کے کفیل نے ہمیں شہبازقلندر کی مزار پر چڑھائی چادریں اتار کر اوڑھائیں جو ان کی روایت کے مطابق صاحبِ مزار کو چھوکر مزید متبرک ہوگئی تھیں اور زائرین کے لئے یہ ایک قلندری تحفہ تصور کیا جاتا ہے، میری عزیزہ آسیہ کوجاچادر اوڑھائی گئی تھی اس پر باقاعدہ چاروں قل درج تھے ، اس نے ہنس کر کہا ” لوجی میرے تو قلوں کا اہتمام ہوگیا“ مجھے جُھرجھری سی آگئی، سودا کا ایک شعر دماغ میں اٹک گیا۔
وہی جہاں میں رموزِ قلندر جانے
بھبھوت تن پہ جو ملبوس قیصری جانے
مزار کی اندرونی صحن میں رنگوں کی وہ چکا چوند ہے کہ ذرا دیر کے لئے انسان کسی اور ہی مقام پرپہنچ جاتا ہے، تقریباً ایک گھٹے کے بعد جب ہم باہر آئے تو لگتا تھا اس فارسی زبان کے شاعر کے مزار کی قربت نے ہماری تالیف قلبی کا کچھ نہ کچھ سامان ضرور کردیاہے، قلندری دھمال پرستوں کا گروہ بھی عجیب ہے، گلے میں سرخ پیلے دوپٹے، کسی کی لمبی زلفیں ، کسی کے سر پر رومی ٹوپی ،لباس کی ساخت فراک سے ملتی چلتی ، جبہ و دستار کا عجیب منظر آنکھوں میں گھل جاتا ہے اور رقص میں ان کے سریوں گھومتے ہیں جیسے مستی میں مولانا روم پرحال کی کیفیت طاری ہوگئی ہو، ہٹو بچو کی فضا میں جب ہم گاڑیوں میں سوار ہوئے تو نوجوان لڑکیوں کا ایک غول مزار کی جانب بڑھ رہا تھا، ایک آدھ نے بال کھول کر گلے میں ڈال رکھے تھے اور آنکھ کا کاجل کچھ اور بھی سیاہ ہوگیا تھا۔ کبھی بابا فریدملتانی نے لکھا تھا
وچ روہی دے رہیند یاں
نازک نازک جٹیاں
راتیںکرن شکار دلیں دے
ڈینہاں ولورن مٹیاں
کرکر دردمنداں کوں زخمی
ہے ہے بدھن نہ پٹیاں
کئی مسکین مسافرپھا ہتے
چوڑ کہتے نے ترٹھیاں
”روہی میں نازک اندام عورتیں رہتی ہیں جو رات میں دِلوں کا شکار کرتی ہیں اور دن چڑھے چاٹی میں دودھ بلونے لگتی ہیں، وہ عاشقوں کو زخمی کرتی ہیں اور کبھی ان کے زخموں پر پھا ہا نہیں رکھتیں ، انہوں نے کئی مسکین مسافروں کو محبت کے جال میںپھنسایا اور اپنی اداو¿ں اور چالا کی سے انہیںتباہ کردیا “ داتا گنج بخش لاہوری، میاںمحمد بخش کھڑی شریف ، شاہ دولہ گجراتی ،زکریا ملتانی، شاہ شمس تبریزی ، سخی سرور، کوٹ مومن اور ایسے ہی کئی دوسرے مزار نظرمیں گھوم گئے، دوپٹوں کی اور چہروں کی ایک کہکہشاں دیکھتے دیکھتے آخر رونقیں کہیں پچھے رہ گئیں ، ہماری گاڑیاں مٹی کے پہاڑنما ٹیلون سے گذرتی ہوئیں کافی بلندی پر واقع ضلع ریسٹ ہاو¿س جو کسی زمانے پر سکندر اعظم کا قلعہ تھا اس پر واقعے سرکٹ ہاﺅس کے خوبصورت منظر میں آن پہنچی تھیں ذرا فاصلے پرچاند ستاروں سے سجا آسمان تھا اور دو¿ر ترائی میںشہر کی مدہم روشنیوں کے درمیاں شہباز قلندر کے مزار کا گنبد چمک رہا تھا ، دل کے آنگن میںکوئی دھمال ڈالنے لگا ۔
لعل میری پت رکھیو بھلاجھولے لالن
سند ھڑی دا، سیہون دا،شہباز قلندر
دما دم مست قلندر، علی دم دم دے اندر
خیال آیا کہ ”تو کیا شہباز قلندر اہل تشعیہ تھے؟ اگروہ اورنگ زیب کے زمانے میںہوتے تو ان پرکیا گذرتی، عجیب ساخیال تھا
میں ٹوپیاں بیچ کر اپنا گذارا چلانے والے عظیم عالمگیر کی نفسیات پرغور کرنا چاہتی تھی کہ کسی رفیق سفر نے کہا ، ایسے ہی وجدآوار معاملات سے گذر کر عابدہ پروین نے سوہنے یار کی گھڑولی بھرنےکا عہد کیا ہوگا۔ سندھ کی عابدہ پروین عارفانہ کلام پڑھتے پڑھتے خود بھی کہیں اور نکل گئی ہے۔
خبراے تحیرعشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ وہ تورہا نہ وہ میں رہا جو رہی سوبے خبری رہی
کیا بے خبری کو بھی ڈیزائن کیا جاسکتاہے؟ درسِ تصوف دے دے کر سندھی عوام کو لوٹس ایٹر بنادیا گیاہے، پورے معاشرے پر ایک طرح کی مجہولیت ، مسکینی اور لاتعلقی چھائی ہوئی ہے اللہ سائیں انہیںکب بقا کی منزل کی طرف منہ پھیرنے کا حکم دے گا اس کافیصلہ قبل از وقت ہے، زندہ قبروں اور مردہ لوگوں سے ملاقات کا یہ اندوہناک سفر ایک تاریخی المیہ ہے جہاں معاشرے کے چند چالبازوں نے غریب آدمی کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی مراد یابی ہر مزار کے ساتھ ایک بازار کا بھی اہتمام کیاہے تبرک کے مکھانے،میٹھے چنے اور چھوہارے ، خوش قسمتی کی گارنٹی دینے والے پتھر ، امام ضامن اور گلے میںلٹکانے والے تعویز بس یہی صلئہ شہید ہے اور مزار کی کمائی اس کا حساب کتاب چند اوپر والے ہاتھوں میںہے آپ اس کا سیدھا سادھا نام کلچر پروموشن بھی رکھ سکتے ہیں خدائی اورپیغمبری گھرانوں کے لوگ ان داتا ہیں اور عام آدمی فقط اور فقط رزقِ خاک ، یہ گروہِ خاک نشیناں کب اپنے وجود اور موجودگی سے آگاہ ہوگا اس واقعے کی تاریخ صیغہ راز میںہے ۔
ایک بہت ہی گرم رات سیہون میں کلچر ڈپارٹمینٹ کے سرکاری ریسٹ ہاو¿س میں بسر ہوی ، مجھ سمیت سب کی آنکھوںمیںرات کے مناظر کا کاخمار اور کئی طرح کے سوال تھے۔
” میںآکھ قلندر دھوکیتا“
سچ ہے محنت اور محبت ایک ہی شکل کے دو الفاظ ہیں، ایک نقطے کی جائے وقوع کا فرق ہے، محرم اور مجرم والا یہ فرق دریا اور دریا کی موج کا درمیانی تفاوت ہے، چار چراغ کون جانے اس وقت کہاں جل رہے تھے، پانچواں چراغ فی الوقت کسی کے ہاتھ میںنہیں تھا، سیہون کی ترائی میںبہنے والا گھڑیال دریا کب کا خشک ہوچکاتھااور خلق خدا دن کی گرمی میں کڑوا پانی پیتے آسمان کو مایوسی سے دیکھ رہی تھی ٹیناثانی کے گائے ہوئے سندھی گیت کی دھن ذہن کے دروازوں پر دستک دےرہی تھی۔ جاتلو و ٹالو من چھانی مانی دیکھ لی۔
آج جون۹۰۰۲ کی تیرہ تاریخ تھی ہمارا قافلہ سیہون کی سڑک سے گذرکر موئن جو دڑو کی طرف جارہاتھا، سخی شہباز قلندر مرندی کامزار کہیںپیچھے رہ گیا تھا، تاریخ آگے بڑھ رہی تھی، بھنبھورجھرک مکلی کینجھر جھیل،ٹھٹھ ، سندھیالوجی ، حیدرآباد میوزم کے بعد ایک نیاتہذیبی منظر نامہ شروع ہونے ولا تھا کسی مقام پر آغانور محمدپٹھان کی گونجیلی آواز ابھری تھی ”یہ ہے دادو ، دادو میں ہے جادو“ لیکن اس جاود کی تفصیل بڑی حوصلہ شکن تھی جادو سے مراد صرف وہ محنت کش تھے جو ہر کام بڑی رغبت سے کرنے کو تیار ہیں جس سے وہ اپنی روٹی کماسکیں موہن جو دڑو کی جانب جاتے ہوئے مجھے سندھ کے سراج میمن کی کتاب ” سندھی زبان“ میں لکھا رگ وید کا ایک اشلوک یاد آیا ” دھرتی ماں، اس جسم کو اسطرح ڈھانپ لے جسطرح ماں اپنے بچے کو اپنے آنچل میںچھپالیتی ہے، میں تیرے چاروں جانب مٹی نچھاور کررہا ہوں تاکہ مٹی میں چھپے چھوٹے کنکر اس جسم کو تکلیف نہ پہنچائیں“
اس شہر کا تمدن کیا تھا اور اس کی اخلاقیات کیسی تھیں، یہ سب اب انسانی چشمِ تصور کا حصہ ہے گندھاراتہذیب کی طرح اس تہذیب نے بھی انسانی تاریخ اور ثقافت کو بہت متاثر کیاہے ،آج بھی تپتی دھوپ میں درجنوں غیر ملکی سیاح سروں پر چھتریاں تانے آنکھوں پر ہاتھوں کا سایہ کئے ، دھوپ کی عینکیں لگائے اس سرزمین پر پتھروں میں، برتنوں ، آلات ، زیورات اور دوسرے نوادرات میں اپنا آپ تلاش کرتے پھرتے ہیں،برسوں پہلے کیٹس نے لکھا تھا۔
"A thing of beauty is a joy for ever its loveliness increases, it will never pass into nothingness."
یہاں یہی تھی عدم وجودیت اور اسکی دہشت جو لوگوں کےلئے مسرت اور خوبصورتی کا باعث بنی ہوئی تھی، ظفر علی ظفر بلوچ جب میوزم کے ٹھہرے ہوئے حبس اور سرپر کھولتے ہوئے سورج سے بچتے بچتے بس کے قریب پہنچے تو اپنا پسینہ پونچھ کر انہوں نے اپنے رفیقانِ سفر کو اطلاع دی کہ ایک مجسمہ بہت کچھ ان کے اجداد سے مشابہ تھا اور انہیں باقاعدہ میوزیم میں رکھنے کی تلقین کررہا تھا،سب ہنسے میں نے ظفر علی ظفر بلوچ کے تہ درتہ سلوٹوں سے بھرے چہرے کو ایک نظر دیکھا وہ خود اس جبرو قہرکی فضا میں ایک زندہ مجسمہ لگ رہے تھے۔
موئن جودڑو کی فیئرپرائس شاپ سندھی کرافٹ کا ایک نمونہ پیش کررہی تھی، لوڈشیڈنگ یہاں بھی ہمارے پیچھے پیچھے چلی آئی تھی، دکان میں سجے ہوئے ہاتھ سے جھلنے والے چمکیلے پنکھے رلیاں، بستر کی چادریں ، کڑھائی والے کرتے ،وال ہینگرز، مٹی اور پتھر کے مجسمے ، شبہییں، تعویز ، برتن ، وڈیو/آڈیو، تاریخی منظر نامے، تصاویر ، غرض آپ جو مانگیں دکاندار حاضر کرنے کا تیار، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طلوِع اسلام سے بھی پہلے سندھ میںپڑھنے لکھنے کا رواج تھا ،یہ لوگ بدھ مت اورہندومت کو ماننے والے تھے، اپنی تہذیبوں کے زیادہ اثرات مو ئن جو دڑو کے کھنڈرات میں پائے جاتے ہیں ، ایک عالم لاہوت ہے، میوزیم کے آئینہ خانوں میں بند سیکڑوں سر اور دھڑ انسانی زندگی کی بے سروپائے کا پتہ دیتے ہیں ۔
شدید گرمی کے باعث ایک مختصر قیام کے بعد ہم لاڑکانہ کیڈٹ کالیج روانہ ہوئے ، پتھروں اورمٹی گارے کے بنے ہوئے مکانوں اور لوُکے تھپیڑے سہتی سنولائی ہوئی بے آب وگیاہ زمین پر میلوں تک ہوکا عالم، کیڈٹ کالج کی حدود سے ذرا پہلے بائیں جانب پانی کے کچھ تالاب نظر آئے ہم سمجھے یہ فِش پانڈ ہیں لیکن یہ سیم تھور کا نمکین پانی تھا جو بتدریج زمین کو دلدلی بنائے جا رہاہے کیڈٹ کالج لاڑکانہ گذشتہ سولہ ستہرہ برس سے نئی نسل کی تعلیمی و تہذیبی آبیاری کررہاہے وہ اپنا ایک مجلہ” انڈس “ نکالتا ہے ، یہاں ٹیچرز لٹریری کلب اور کیڈٹ لٹریری کلب بنائے گئے ہیں۔ اس ادارے کے سربراہ محمد یوسف شیخ جو ڈائریکٹرجنرل ظہرالدین ملک صاحب کے دوست ہیںاپنی خدمات کے عوض حکومتِ پاکستان سے ستارہءامتیاز حاصل کر چکے ہیں ، ایک رسالہ انہوں نے ہمیںبھی عطا کیا جس کا نام ”سخن نو آموز“ ہے اور جو کئڈٹس کی معصوم تحریروں پر مشتمل ہے اور سالانہ ” انڈس“ کی تحریروں کا انتخاب ہے، کیڈٹ کالج جو پانچ سورہائشی طلباءپر مشتمل ہے اسے افواج پاکستان کے ریٹائرڈ جزلز اور بریگیڈئرز کی نگرانی میں بورڈ آف گورنر چلاتا ہے ، اس قسم کے اداروں کا وزٹ ہمیشہ مجھے حکمران جماعت اورعوام کے درمیانی تفاوت کی منطق سمجھاتا چلاجاتاہے، شاید رموزِ قلندری اور اسرارِ خداوندی کے درمیان کھنچی ہوئی لکیر کوئی نہ پاٹ سکے۔
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اورہم کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
کیڈٹ کالج کی قیمتی اور شاندار لائبریری دیکھنے کے بعد کالج کے گیسٹ ہاو¿س کے پر تکلف ظہرانے اور تحائف کتب کے بعد پرنسپل صاحب نے نہایت خوشدلی سے ہمیں خدا حافظ کہا ، جب ہم فلائنگ کوچ پر سوارہوئے ہماری دائیں جانب دوبڑے جہازوں کے ماڈل اور نہایت سلیقے سے نیچے سبزہ زاروں سے ذرا فاصلے پر کالج کی شفاف عمارتیںیوں دیکھائی دے رہی تھیں جیسے انہوں نے روشنی کا غسل کیا ہے، پرنسپل صاحب کی باریک کٹی ہوئی مونچھیں ، تیزنگاہی اور والہانہ قہقہے سفر میں تھوڑی دورہمارے ساتھ ساتھ آئے، اب ہم ایک مُنے سے ہوائی اڈے کے باہر کھڑے تھے جہاں لاڑکانہ کے سندھی اور سرائیکی شاعروں نے ایک رسیپشن کا اہتمام کررکھا تھا، ایک طویل بر آمدے سے گذر کرہم ہوائی اڈے کے استقبالیہ ہال میں آئے ،مہمانوں کو اجرکیں پہنائی گئیں اور ان کی شان میں سندھی اور سرائیکی قصیدے پڑھے گئے ، کانوں میں اب تک ایک خوش الحان شاعر کی آواز گونجتی ہے۔
دنیا میںموتی دانہ ضلع لاڑکانہ
اس” سگھڑ“ یعنی(لوک شاعر) کی فی البدیح شاعری کے دوران دماغ کہیں اور ہی جان پہچا، موئن جودڑو اور لاڑکانہ کے درمیان کبھی اس ہوائی اڈے پر بے نظیر اُترتی ہوگی، معلوم نہیں خاموشی کے ساتھ یا ہجوم کے ساتھ، اور ایسی ہی بے آباد جگہ پر کبھی قائداعظم کا خاموش تابوت اُتراہوگا بوٹوں کی دھمک اور ہتھیاروں کی دہشت کے ساتھ کہیں اس دہشت میں سرِبازار پابہ سلاسل نواب اکبر بگٹی بھی آن کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔تو یہ ہے ہماری تاریخ اور یہ ہیں ہم، اپنے اپنے چوہا خانے میں بزدلی کی زندگی بسر کرتے ہوئے، ایک دوسرے سے نظریں چراکر اغیار کے ہتھ پر بیعت کرنے والے، کیا اس اطاعت گذاری اور ریاکاری کے بعدکسی دانش اور تعلق کی آبیاری کی ضرورت ہوا کرتی ہے ؟ نیشنل کیک میں اپنا اپنا حصہ لینے والے اب صرف کیک کا خالی ڈبہ ہی چھوڑ کر گئے تھے، چیونٹیوں اور مکھیوں کی بے وقت زندگی بسر کرتی رعایا اس ڈبے کے ریپر سے دل بہلانے نے میںمصروف تھی کون جانے یہ بہلاوے کی رسم کب تک چلے؟
ہمارا قافلہ لاڑکانہ کے سمبارا اِن ہوٹل کی جانب بڑھ رہا تھا دل یا دوں کے قافلے کے ساتھ تھا۔ سمبارا ہوٹل کے لاو¿نج میں ہی خوش شکل اور خوش وضع نوجوان سندھی ادبیوں کا ایک گروہ ہمارا انتظار کررہا تھا، اس گروہ کا والہانہ پن اور اشتیاق قابلِ دید تھا دوسری جانب سمبارا ہوٹل کی ڈھل لمبی راہداری ، سبزہ زار اور آرام وہ کمرے نے بھی بہت متاثر کیا، جب ہم ہوٹل سے باہر نکلے تو شام اتر رہی تھی ، ہمارے سامنے ہی ایک بڑے گراو¿نڈمیں لکڑی کے بڑے بڑے تخت پوشوں پر افغانی قالین بچھا کر گاو¿تکیے لگا دئیے گئے، آہستہ آہستہ لوگوں کی آمد اور کباب کی خوشبومیں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ لاڑکانہ کی پبلک بھی لاہوریوں کی طرح کباب اور فالودہ کھانے کی شوقین دکھائی دیتی ہے لوڈ شیڈنگ کی بناءپر سندھی ادیبوں سے ملاقات کسی سپنہ ریسٹورنٹ میں رکھی گئی تھی جو لاڑکانہ کے مین بازار میں واقع تھا۔ وہاں تقریباً پچاس ساٹھ ادیبوں کا جمگٹھا تھا جس میں ہم بارہ بھی شامل ہوگئے تقریب کی صدارت سندھ کی ایک معزز ادبی، سماجی اور تہذیبی شخصیت کامریڈسوبھوگیان چندانی نے کی جنہیں حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان نے سب سے بڑا ادبی ایوارڈ دیا گیا ہے ، ان کی تعلیمات پر بنگال، سندھ، لکھنو، اور دوسری تہذیبوں کے اثرات ہیں وہ شانتی نکیٹن میں ٹیگور کے بھی طالب علم رہے، ان کا خطبئہ صدارت امن، بھائی چارے، محبت ، ترقی، اور عدم عصبیت کے احساسات کی روشن مثال تھا۔
یہاں بھی مہمانوں کو اجرکوں سے سجایا گیا، ذاتی طور پرمجھے اس علاقے کے نوجوان ادیبوں اور شاعروں سے ملِ کر بہت خوشی ہوئی ، اگر چہ وہ سندھی تہذیب اور زبان کے متوالے ہیں لیکن جدید دنیا کا ویزن رکھتے ہیں، یہاں ایک لڑکیوں کا اور ایک لڑکوں کا کالج موجود ہے ، ساتھ ہی میں چانڈ کامیڈیکل کالج بھی بھٹو صاحب نے یہاں قائم کیا تھا جو اب اپنے عروج پر ہے ریڈیواسٹیشن ہے ، آرٹس کونسل ہے اور یقینا اور بھی بہت کچھ ، اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ لاڑکانہ نے عالمی سطح کی دوہستیاں اس ملک کے جمہوری نظام پر قربان کی ہیں،ان کے دلوں میں غم ، تکلیف ، بے حفاظتی، کم مائیگی اور ہلکے سے انتقام کے جذبات اگر موجودہیں تو کچھ بھی غیرفطری نہیں اتنے پڑے نقصان کے بعد چھوٹی موٹی بغاوت کی خواہش ان کا حق ہے ان احساسات کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے، سندھی ادیب اپنے علاقے کے فطری ماحول، آب وہوا، وسائل کی کمی، شعورکی زیادتی ، اطلاع کی جانبداری، غیرمنصفانہ مالیاتی تقسیم ، بے جانسلی تفاخراور تہذیبی تنافر کے باعث طرح طرح کی گھمن گھیریوں میں مبتلا ہے جس طرح پاکستانی سوچتے ہیں کہ ان کی ہر ترقی کی راہ میںامریکہ حائل ہے اسی طرح سندھی ادیب کی تان بھی پنجاب کے تصور پر ٹوٹتی ہے، اگر سندھ میں بارش نہیں ہورہی تو پنجاب کا قصور ہے اگر سندھ میں پانی کی کمی ہے تو تمام دریا پنجاب میں رُکے ہوئے ہیں اگر سندھ میںلوڈ شیڈنگ ہے تو پنجاب بجلی فراہمی نہیںکررہا ، اگر سندھ میں تعلیمی ادارے کم ہیں تو پنجاب تعلیم کی راہ میں حائل ہے، الغرض پنجاب کا یہ مافوق الفطرت کردار شعوری طور پرسندھ کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے، سندھی ادیب اور عام شہری کی قسمت میںلکھا ہے کہ وہ ہزارو ںسال گذری ہوئی تہذیب اور تاریخ پر فخر کرے وہ زندہ لوگوںکے مسائل کی دنےا سے کٹ کر مقبروں پرسرود بجائے اور دھمالےں ڈالے، وہ عمل کا راستہ چھوڑ کر بےراگ اور دنےاوی کنارا اکشی کے راستے پر چلے، وہ اپنی زبان، اپنی تہذےب، اپنی تارےخ، اپنی گلی، اپنے محلے سے باہر جھانک کر نہ دےکھے کےونکہ اس طرح اس کے خالص وجود کی نفی لحطہ بہ لحطہ بدلتی ہوئی دنےا مےں اس قدر خالص ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے؟ کون ہے جو اقوام کے تہذےبی، تعلےمی، لسانی، اور تارےخی نظام کو خالصےت کے چھوٹے چھوٹے جوبڑوں مےن تقسےم کرکے عوام الناس کو اس مےں تعصبات کی وہےل مچھلےاں پالنے کی تعلےم دے رہا ہے؟ کون ہے جو تازہ ہوا کے امکانات ختم کرکے گھروں مےں اندھےرا اور حبس پےدا کرنا چاہتا ہے،ےہ معاملات سندھ کے آنے والے کل سے بندھ ہوئے ہےں وہ سندھ جو کسی گذرے ہوئے کل مےں زندہ ہے اس کا کوئی آج نہےں اور اس کے لئے آنے والے کل کی منصوبہ بندی کاکوئی امکان نہےں، مخدومےت کے چلن نے زندہ انسانوں کو مردہ لوگوں کے معجزات سے جوڑ رکھا ہے اور جاگےرداری نظام اپنے خالص وجود کے لئے لوگوں کی موجودگی اور ان کی ضرورےات کی موجودگی سے مسلسل انکار کئے جاتا ہے سندھی ادےب اپنی زبان کو انگرےزی کی ڈور سے باندھنے کو تےار ہے لےکن اردو کے نام پر اس کا منہ کڑوا ہوجاتا ہے، شاےد اردوکے خلاف ےہ ری اےکشن کراچی مےں بسنے والے اہل اُردو ہوں جو اپنی جگہ اپنے خالص ہونے کا دعویٰ کئے جا رہے ہےں، ان لسانی تنازعات کی اس خلیج مےں اےک تےسرے کردار کی ضرورت ہے سندھ کی جلی ہوئی سرزمےن نئے آباد کار چاہتی ہے، سندھ کا کڑوا پانی فلٹرےشن کا منتظر ہے، سندھ کے اندرونی شہروں اور گاو¿ں تک نئی اور مثبت سوچ رکھنے والے نوجوان وفد کے تبادلے کی ضرورت ہے، سچ پوچھئے تو سندھ کو سندھ کی ضرورت ہے، جب تک عوام الناس اور سندھی ادیب چاہے وہ کسی زبان سے بھی تعلق کےوں نہ رکھتا ہو اپنے لوگوں کے ہمت نہےں بڑھائے گا، سندھ آثارِ قدےمہ اور کلچر کے نام پر اےک گمشدہ تہذےب کاشاہکار بنا رہے گا۔
سندھ کی شاہراہوں ، گلیوں ، بازاروںسے گذرتے ہوتے احساس ہوتا ہے کہ بے نظیر کا شہید ہونا سندھ کی جذباتی زندگی میںکیا اہمیت رکھتاہے ہر دیوار اسی نام سے مزین ہے جواب نقش بہ دیوارہی رہ گیا ہے۔ ایسی عظیم بیٹی پید اکرنے والی سندھ کی عورتیں یا مقبروں کے طواف میں مگن ہیںیا کھیتوں کھلیانوں میںپائی جاتی ہیں، دھان کی پنیری بوتی ہوئی لاتعداد لاغر جسم و لباس والی عورتیں سورج کی گرمی اور حبس زدہ پانی کا مقابلہ کررہی ہیں اور ایک سندھی مرد آنکھوں میں سرمہ لگائے، پیشانی پر سے کئی ہوئی ٹوپی سرپہ رکھے اپنی باریک باریک مونچھوں کو تاو¿دیتے ہوئے آتی جاتی ٹریفک پر غور کررہا ہے وڈیرا شاید اوطاق میںہے آنکھوںمیں نورالھدیٰ شاہ کی ڈرامہ سیریل جنگل کے کئی مناظر گھوم گئے ہیں۔
ان محنت کش عورتوں سے قطع نظر کراچی ، حیدرآباد اور جامشورو کی سرکاری تقاریب کے علاوہ عوامی جمھگٹے میں شاید ہی کوئی عورت قریب پھٹکی ہو بلکہ کینجھر جھیل کی ضیافت میںہمارے میزبان اس میز پر بھی تشریف فرمانہیںہوئے جہاں ہم دو عورتیں وفد کے ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں ، حیرت ہے اسی سندھ نے فہمیدہ ریاض ، پروین شاکر، مہتاب اکبر راشدی، سحرامداد، اور ڈاکٹر فہمیدہ حسین جیسی اہل دانش خواتین کو جنم دیاہے۔
لاڑکانہ کے ادیبوں سے دھواں دھارلیکن منطقی مباحثے کے بعد ایک بے حد لذیذ کھانا کھایا جس میں سندھ کی پلہ اور ڈنبھرہ مچھلی ، سفید گوشت اور تلِوں سے سجے نان شامل تھے، اس ڈنرکا اہمتام ڈی سی او لاڑکانہ کی جانب امیر ابڑو نے جو یہاں کے ڈی ڈی او نے کیا تھا، محمدعلی پٹھان ، پروفیسر سلیم کورائی، محترم جام جمالی ، مختیار ملک، منظور کوہیار ، مختیار سموں ، ڈاکٹر ساغر ابرو ، سعیدسومرو ، منظور مشوری ، اور کئی دوسرے لکھنے والوں کی کتابیں اور نظریات ہم بطور تحفہ ساتھ لئے لاڑکانہ آرٹس کونسل جا پہنچے جہاں سمبارا اسکول کی بچیوں نے خوش آمدید کہا اورایک استقبالیہ نغمے کے بعد عمر ماروی کاٹیبلوپیش کیا ، عمر ماروی سندھ کی ایک لوک داستان ہے، عمر سومرو کے دور میں تھر ایک سرسبز علاقہ تھا جہاں کے چھوٹے سے گاو¿ں ملیر میں ایک کسان رہتا تھا جس نے کھیتی باڑی کے لئے پھوگ نامی ایک ملازم رکھاہوا تھا، ان کی ایک خوبصورت لڑکی جوان ہونے پر پھوگ اسکی محبت میںمتبلا ہوا اور اس کا رشتہ مانگا، ماروی کے والدین اس کارشتہ کھیت سے طے کر چکے تھے انکار پرپھوگ ناراض ہوکر عمر کوٹ چلاگیا اور عمر کے سامنے ماروی کے حسن کی تعریف کی، عمر نادیدہ عاشق ہوا، دونوں ملیرکے گاو¿ں بھالوا پہنچ کر ماروی کا انتظار کرنے لگے حتی کہ ماروی پانی بھر نے آئی اور عمر اس پر فریفتہ ہوا اس نے پانی مانگنے کے بہانے ماروی کو اونٹ پربٹھایا اور عمر کوٹ لے آیا ، عمر اُسے اپنی ملکہ بنانا چاہتا تھا اور ماروی کہتی تھی” مجھے تم سے اور محل سے کوئی غرض نہیں میرا رشتہ ازل سے کھیت سے جڑا ہے ، عمر نے ماروی کو قید کردیا اور زنجیریں پہنادیں ، ماروی پھر بھی نہ مانی، آخر عمر کے دل میں رحم کے جذبات پیدا ہوئے اس نے ماروی کو بہن بنالیا ، کھیت کے سامنے پاک دامنی کا ثبوت دینے کے لئے دونوں کو آگ کا سامنا کرنا پڑا ، آگ میںتپی ہوئی لوہےکی سرخ سلاخ دونوں پر اثرانداز نہ ہوئی، سندھی میںماروی عصمت اور حب الوطنی کی علامت ہے شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اس داستان کےلئے سُرمارئی ترتیب دیا ہے یہ داستان اُسی سر میں گائی جاتی ہے ، ماروی کہتی ہے
میرے تھر کے چرواہوںکی یہ ریت نہیں کہ
وہ سونے کے عوض اپنے پیاروں کو بدل ڈالیں
میں عمر کوٹ میں آکر ان کی ریت نہ توڑوں گی
اور اپنی جھگیوں کومحلاتوں سے نہ بدلوں گی
عمر ماروی ٹیبلو کی پیش کش کے بعد لوک فنکاروں نے کلام سچل سرمست گایا۔
اے یار میرے دل کو تیر نظر لگاہے
سب حال میرے دل کا اللہ جانتاہے
لاڑکانہ کے تاریخ آسمان تلے جہاں سیاہ تیز ہوا کی غرغراہٹ آ آکر ڈرارہی تھی آرٹس کونسل کے کھلے پنڈال میں ساٹھ سترسندھی بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر سچل کا کلام سُنناایک یادگار تجربہ تھا، سچل کو میں نے اپنی زندگی کے پچسپویں برس میں پڑھا اب بھی اس کے اردُو تراجم اور دکن مِلی اردُو کے کئی شعر راستہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں وہ جو محبت کو مستی اور پاگل پن قرار دیتا ہے وہ جو اپنے مُرشد کو حق اور سچائی کی شبہیہ قراردیتا ہے وہ جو سلوک اور جستجو کاپیغام برہے جس کےلئے فراق ہی وصال ہے، جو خدا کو حسن اور کاملیت سے مشروط کرتاہے اور کہتا ہے انسانی دل اور اسکی محبت ایک جوہر ہے جسکی حفاظت ضروری ہے، سچل کی کہانی بھی عجیب ہے جب اُسے علم کے حصول کے لئے مدرسہ بھیجا گیا اس نے انکار کردیا ، یہ الف اللہ سچل کی زندگی کی پہلی اور آخری سچائی ہے، وہ جو عابدہ پروین گاتی پھرتی ہے، اک نقطے تے گل مکدی اے ،پھڑ نقطہ چھوڑ کتاباں نوں“ سچل نے اسی ایک نقطے پراپنی زندگی کا دائرہ کھینچاہے اور پھر اس کائنات کا ہے ہر نقط اس پر الف یعنی ظاہر ہوگیاہے۔
"O God! in every temple I see the wroshipers that seek Thee.
And in every tongue I hear Thy servants who sing thy Name! Islam and the Hindu Faith Do both declares:- feel after Thee!
Each Thou art One!
And thou hath no equal!"
توحید کا یہ سبق انگریزی ٹرانسلیشن میں ٹی، ایل ، وسوانی نے لکھا ہے اور اسے پروفیسر سخی قبول محمد نے ایڈٹ کیا ہے ، کتاب کا نام رکھا گیا ہے
A Voice from the wilderness
آپ اسے صحرا کی صدا بھی کہہ سکتے ہیں ، پنستالیس صفحے کی مختصر سی کتاب کو سچل چئیر کے زیر اہتمام شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور نے دوسرے بار شائع کیا ہے، یہ کتاب سچل چئیر کے ڈائریکٹر پروفیسرایاز گل نے عطا کی ہے، ایاز کی بے نیازی پرسچل کی شاعری کے اثرات نمایاں ہیں جب رات دوبجے آرٹس کونسل کی محفل برخاست ہوئی ہم آرام کے لئے سمبارا ہوٹل آئے جو نیم تاریک روشنیوں میں بڑا پُراسرار لگ رہا تھا ۴۱ جون ۹۰۰۲ وفد کا ہر فرد آٹھ بجے ناشتے سے فارغ ہوکر فلائنگ کوچ میں چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا، قافلہ نودیرو روانہ ہورہا تھا مجھے کا شف علی غائر کا ایک شعر یاد آگیا
قدم میں خاک اٹھاو¿ں گا اُس گلی کی طرف دعاکو ہاتھ اٹھانا محل ہوگئے ہیں۔
شاید لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیل غم کا موسم شروع ہونے والا تھا سڑک کے دونوں اطراف پھیلی ہوئی ویرانی میں کہیں کہیں دھان کی فصل بوئی جارہی تھی، بچے ، بوڑھے ، عورتیں ، نوجوانی کی رمق کم ہی نظر آئی اسی کام میں مگن تھے نو دیرو کے قریبی علاقوں میں درختوں کے کچھ جھنڈ بھی نظر آئے بنیادی سڑک سے ہٹ کر ایک پُل کراس کرتے ہی ہماری کو چ کُھلی گلیوں سے گذرنے لگی ، ارد گرد کچے مکان اور وہ جو کولرج کہتا ہے
All in a hot and copper sky,
The bloody Sun, at noon
سورج کے ساتھ دل بھی جل رہا تھا اورپھر قدرے کُھلا میدان آیا جہاں خاک اُڑ رہی تھی، پورے علاقے میں پانی کا نشان نہ تھا ، ایک ملحقہ مسجد میں جاکر پانی تلاش کیا نامراد لوٹے ، مقبرے کے باہر چھوٹے چھوٹے بچے بھٹو خاندان کی تصاویر بیچ رہے تھے ، فیض یاد آئے
گلیوں میں لئے پھرتے ہیں جس دھجی کو طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا عَلَم ہے
دوبوڑھی عورتیں اور دو مجہول سے آدمی گلاب کی پتیوں کی مختصر ڈھیریاں اور کچھ مزار کی چادریں لئے بیٹھے تھے، اندازہ ہوا کہ نجی قبرستان اور کلچرل منسٹری کے زیراہتمام چلنے والے مزاروں میں کیا فرق ہوتاہے ؟یہاں کسی کو مزار کی کمائی کی توقع نہیں تھی۔اس لئے نظِرکرم کی توقع بھی بیکار تھی،۷۷۹۱ءسے مرجعِ خلائق یہ خاندانی عدم آباد جس کا گنبد میلوں سے دکھائی دیتا ہے نیم تاریکی اور نیم روشنی کے داخلی مناظر پیش کررہا تھا ، اندرونی فرش زیر تعمیر ہے اس لئے زمین کی سختی برداشت کرنے کے لئے کچھ مدقوق قالین اور چادریں بچھائی گئی ہیں، ایک سمٹے ہوئے چھت گیر چوبترے میں قائد عوام محوِخواب تھا اور اس کی عوام کچی دیواروں کے مکانوں میں پانی کے ایک پیالے کو ترستی ہوئی آج بھی اس کی تصاویر ، تحریر اور تقریر کی محبت میںمبتلا ہے،
رسمِ جہاں بھی عجب ہے بھٹوازم ، جئے بھٹو ، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا کی نعرہ بازی کرنے والے اس فضا کے پس منظر میں زخم کی پرورش کرتے ہوئے پیاس پر پہرہ دے رہے تھے، افلاس کی بساند سے بھری اسی بُھربُھری مٹی میں قائد عوام وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکے دائیں جانب دخترِ مشرق وزیراعظم بے نظر تاریخی بر بریت کی ابھری ہوئی تصویر لگ رہی تھی ،کیا یہ وہی تھی جس کے تابوت نے گھنٹو ں اور دنوں کے حساب سے صرف انسانوں کے کندھوں پرسفر کیا تھا، جس کے جانثار اس پرنچھاور ہوکر قرض ِ محبت ادا کررہے تھے۔ بس مٹی کا ایک چھوکھٹا اور اس پر چڑھائی گئی چادریں کیا یہی اس کی جدوجہد کی کمائی تھی ، آنکھون میںایک پھولوں سے لدا ہوا چہرہ، چاروں طرف سے چلائی گئی گولیوں کے نشانے اور خودکش دھماکے کی آواز گونج اٹھی ، حیرت ہے اس کے تین ہمسفروں کو خراش تک نہ آئی تھی، شاید پہلے سے طے شدہ انصاف کے ہاتھوں زینتِ دار بننے والے باپ کی بیٹی پہلے سے طے شدہ قتل کا صرف روزنامچہ ہی لکھ رہی تھی فیصلہ کیا واقعتا و¿سمانوں پرہوتے ہیں؟
دونوں بنیادی قبروں سے ذرا فاصلے پر بائیں جانب میر مرتضیٰ اور میر شاہنواز کی قبریں ہیں، بھٹو صاحب کی پائنتی کچھ اور اہل خاندان محوِ خواب ہیں، اس گنبدِ مینائی میںوہ عالمِ تنہائی ہے کہ قرآن پڑھنے والے بھی آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتے یا شاید فرطِ جذبات سے آواز ہی نہیں نکلتی ، یہ کیسا مزار تھا جس پر نہ کوئی چوبدار ، نہ حفاظت کرنے والا، نہ مورچھل چھلنے والے ، نہ آگے آگے ہوکر مقابر کی چادریں سمٹنے والے بستہ بردار ، پورے پاکستان میں آنسوبہانے والی آنکھوں کے دوخواب اسی زمین کی تہوں میں اُتر گئے، شاہ عبدالطیف بھٹائی ہوتے تو خداجانے اپنی شاعری میں کیا لکھتے ، مجھے شیخ ایاز یاد آئے
”وہ سورج ڈوبا پیالے میں
بھر دیا کسی نے لال ہو
سب گھونٹ گھونٹ جو پیتے ہیں
اور جیتے ہیں“
لورات آئی ، ہر تالو پر
تارے ، تارے کا تیر چبھا
سب اپنی تڑپ چھپا تے ہیںا
اور گاتے ہیں
تونہیں ہے تو ، میں نہیں ہوں میں!
ہم کیا ہیں! کیوں ہیں ! کس سے کہیں
بہادر آدمی اور اس کی نہتی لڑکی جس سے ایک عالم پیار کرتا تھا اور خم کھاتا تھا خدا جانے کہاں چلے گئے، تاریخ کا صفحہ سرخ پڑا ہے، اس لہوکی لالی سے جدید سندھ کا آغاز ہوتا ہے یہ دونوں وقت سندھیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور ” کارساز“ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں ، برسوں پہلے اختر حسین جعفری نے مشورہ دیا تھا۔
” کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھانہیں“
اس کے باوجود کربلا کی مثال سندھ اپنی آب وہوا ، اپنی قربانی اور اپنے عزم میں جمہوریت کی دوڑ میں ہمیشہ اول آیا ، بھٹو خاندان کے اس خوابیدہ محل سے نکلے تو بہت دیر تک سب پر سکتہ طاری رہا، سب کی آنکھون میں آنسو تھے، احسان اکبر اور اعزاز احمد آذر دونوں شہیدوں کے بارے میں لکھی گئی نظموں کے حوالے دیتے رہے ، ہم لمحہ بہ لمحہ دنیا کے بے مثل ضلع لاڑکانہ سے دُور ہوتے جارہے تھے اور کچھ دل ہی جانتا تھا کہ کس دل سے یہ دوُری طے کی جارہی تھی، شیخ ایاز نے ہمت بندھائی
مجھے پتہ ہے مجھے پتہ ہے آگ ہے میرا گیت
بھڑک بھڑکر بھنھٹ ہوگا جلے گا ایک جہان
آخر تیری ہار لکھی ہے، آخر میری جیت
میرے دیپک راگ سے اب ابھرے گا نیا انسان
اب ہم سکھر میں تھے ، شہر کے آغاز میں طرح طرح کے سلوگن لکھے ہوئے ہیں، صوفیوں کا شہر ، گنبدوں او رمیناروںکا شہر ، دریائے سندھ کے کنارے پر آباد کا شہر ، قومی ورثے کا شہر ، ہمیں سکھر بیراج کے قریب اتارا گیا، اجرکیں پہنائی گئیں ، دریا کے کنارے اس طرح خیر مقدم بہت شاندار لگ رہا تھا ، خیرپوریونیورسٹی کے راجسٹرارڈاکٹر بدراجن ، بیراج کے جنرل مینیجر،اورسندھی ہائکو کے شاعر بشیر منگی اورسندھی ادبی سنگت کے پروفیسر منظور اجن دیگر معززین شہر کے ہمراہ ہمارے ساتھ تھے، تین منزلیں طے کرکے جب ہم بیراج کے اوپرپہنچے تو نظاراہی عجب تھا، اباسین یعنی دریائے سندھ درمیاں میں بہہ رہا تھا اور چار بڑی نہریں اس کے دائیں جانب اور تین بڑی نہریں اس کے بائیں جانب مختلف سمتوں کو رواں تھیں ،پورے سندھ کی آبیاری کی ذمہ داری انہی نہروں پر رکھی گئی ہے، میلوں تک پھیلے اس بیراج کا معائنہ ہم نے اس ٹرالی ٹرین پر کیا جو پل کے اوپر چلتی ہے یہ سکھر بیراج۲۳۹۱میں انگریزوں کے دور حکومت میں قائم ہوا سب لوگ انگریزوں کی حکت عملی کو داد دے رہے تھے اسی اباسین کے ایک کنارے پرتر بیلا ڈیم کے پہیپور ریسٹ ہاو¿س میں پانی کو مختلف رنگ اور شکلیں بدلتے دیکھنے کاایک منظر نامہ آنکھوں سے سامنے سے گذرگیا، اسی طرح تربیلا ڈیم کے مین ریسٹ ہاو¿س کا نام ہی اباسین ریسٹ ہاو¿س رکھا گیا ہے ۲۹۹۱ ءمیں جب مجھے پہلی دفعہ اس عمارت کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو سفید عمارت کی سیڑھیوں اور برآمدوں میں رکھے گئے چاکلیٹی گملے کسی کریم کیک کی طرح لگے، خدا جانے اباسین اور اس کے دونوں کناروںپر بنائی گئی آبادیاں اب پہلی صورت پر قائم بھی ہیں یا نہیں؟ بالا بالا سکھر شہر کی سڑک سے گذرتے ہوئے قافلہ خیرپور کی طرف چلنے لگا سکھر شہر میں بئراج کالونی سے گزرنے وقت پہلی نظر میں لگا جہانگیر کے مقبرے واقع شاہدرہ لاہور آن پہنچے ہیں، جگہ جگہ کھجوروں کے جھنڈ، آہستہ آہستہ یہی جھنڈ جنگل میں تبدیل ہوتے چلے گئے،دیوقامت درخت پھل سے لدے ہوئے تھے جو ابھی پیلاہٹ کے مرحلے سے گذررہا تھا ، اچانک ایک بغلی سڑک سے ہوکر ہم ایسے علاقے میں داخل ہوئے جو قدیم انگریزی نہری نظام کا ریسٹ ہاو¿س تھا پرانے پن کے باوجود عمارت کی اچھی حفاظت کی گئی تھی اور بیرونی قطعہ اراضی سرسبزی وشادابی کا مظاہرہ کررہا تھا ،یہاں ریفرشمنٹ کے بعد اسی قسم کی طویل و عریض سرکاری عمارتوں سے گذرتے ہوئے ہم خیرپور کی قومی شاہ راہ پر چلنے لگے اور آدھ گھنٹے کی ڈرائیور کے بعدآپہنچے جو والی خیرپور کے بیٹے میر مہدی رضا ٹالپور اپنے بڑوں کے بنائے ہوئے فیض محل میںہمارے انتظار کررہے تھے، فیض محل بھی اپنی قدامت کی بہار دکھارہاتھا اس کے محراب دار بر آمدے میں شاہی خاندان کا کچھ فرنیچر اور دیگر نوادرات پڑے تھے، محل کے دربار حال میں داخل ہوئے تو مجھے لگا اس کا ڈیزائن بہت کچھ بہاول پور کے نور محل جیسا ہے، اس کی اندرونی آرائش اس سے مختلف تھی ہر سمت قدآدم آئینے ہیں جن میں آویزاں فانوسوں کی روشنیاں جب اپنا آپ دکھاتی ہیں تو آنکھیں چند ھیاجاتی ہیں، بائیں جانب کی غلام گردش میں وائی خیرپور کی کتب قلمی نسخوں ،مخطوطات اور خظوط تصاویر اور دوسری استعمال کی چیزوں کا ذخیرہ پڑا ہے، دیوان خانے کی دیواروں پر پشت ہاپشت گذر نے والے نوابین کی قد آدم شبہیں لٹکی ہیں غالب نے کیا ہی خوب کہا تھا
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقش ِ پاکہ یوں
زمانہ اپنے قدم ان تصاویر پررکھتے ہوئے اطاعت گذاری کے نشانات بھی مٹاچکا تھا ۔ اب یہ محل کہ متروکہ جائیداد ہے اور آثار قدیمہ کے طورپر والیاں خیرپور کو اپنے ماضی کی یادتازہ دلاتارہتا کہ” پدرم سلطان بود©“ میں ، دربار محل کے بغلی درواز ے سے گذر کر ہمیں ایک شاہی ڈرائنگ روم میںبٹھایا گیا تو کچھ دیر بعد سرخ پردوں کے عقب سے ملحقہ آرام گاہ سے وائی خیرپور کاپوتہ خوبصورت چہرے اور مہرون رنگ کے شلو ار قمیص کے کے ہمراہ بر آمد ہوا ،پر نس میر مہدی رضا نہایت شستہ زبان میں اپنے خاندان کی تاریخ ، تقسیم کے بعد کی مصیبتیں ، مارشل لا کے مصائب اپنی تعلیم کے مکمل نہ ہونے کی رام کہانی بیان کرتے رہے ، ان دونوں ان کی ذاتی رہائش والی خیرپور کے چالیس محلات میں سے ایک یعنی موتی محل میںہے جو خیرپور سے چالیس میل کے فاصلے پرکوٹ ڈیجی میں ہے ریاست نے جس دم پاکستان سے اپنے الحاق کا اعلان کیا، والیان کی زیادہ تر املاک حکومت پاکستان کے تحویل اور تصرف میں آگئیں ، وقت گذرنے کے ساتھ ان کی اولادوں سے بھی بے اعتنائی کا سلسلہ شروع ہوا، چھوٹے میرزادہ اسی بے اعتنائی کے گلہِ گذار ہیں ایک نہایت ہی پر تکلف چائے کے بعدمیر مہدی رضا نے وفد کے سب اراکین کو ایک ایک وڈیو کیسٹ سے نوازا ، جس کے ٹائیٹل پر ان کے بچپن کی تصویر ، دووالیانِ خیرپور کی تصویریں اور فیض محل کی نقش کاری موجود ہے، پرنس کے عقب میںایک زریں کرسی پڑی ہے جو خالی دکھائی گئی ہے ،یہ کیسٹ گیزٹرکی پروڈکشن ہے، اس میں ریاست خیرپور کا تعارف ، تعلیمی نظام، انصاف پسندی ، معاشی ترقی اور ترقی کا احوال موجود ہے اس کے پروڈیوسر پروفیسر محمد علی ہیں۔ پرنس کلاسیکی موسیقی کے دلدادہ ہیں ظہیرالدین ملک ڈائریکٹر جنرل نے انہیں اکیڈمی کی کتابوں کا تحفہ پیش کیا، فیض محل سے نکلتے ہوئے کراچی اور جامشورو کے کہیں درمیان جھرک ضلع ٹھٹھہ کے پہاڑوں کے درمیاں دریائے سندھ کے کتارے پر آباد پرنس آغا کریم خان کے پرداد اآغا خان اول سلطان محمد شاہ کا مکان نظر میں گھوم گیا، کچی مٹی کی تیرہ انچ موٹی دیواروں کی یہ مختصر سی حویلی جس کے ملحقہ صحن ہیں جب ہم پلاسٹک کی کرسیوں اور موٹے بان کی چارپائیوں پر بیٹھے علاقے کے روائتی بزرگ تاریخ دان سے اسماعیلی پیشوا کی باتیں سُن رہے تھے نیم کا اکلوتا درخت گول دائرے میں یوں رقص کرنے لگتاجیسے باتیں سن کر اس پر حال کی کیفیت طاری ہوگئی ہے، اُپلوں کی آگ پر بنائی گئی چائے کا ذائقہ بھی خوشگوار تھا، دوران گفتگو گاو¿ں کی ایک نیم بزرگ عورت گلے میں منکے موتی پہنے سراجرک سے ڈھانپے آئی جسطرف ہم دونوں خواتین بیٹھی تھیں ، اس نے نہایت بے اعتنائی سے دیکھا اورپھر وفد کے ایک ایک رکن حتی کہ پولیس والوں سے ہاتھ ملاکر تیزی سے قدم دروازے سے باہر نکل گئی ، شاید یہ قدیم سندھ کی ترقی پسند خاتون تھی جسے مردوزن کی مساوات کایہ اکلوتا موقع ہی میسر آیا ، ہم اس کی بے نیازی پر مسکراکررہ گئیں ، اسماعیلی پیشوا کے گھر کے کسی پہلو میں قائد اعظم کے والد جناح پونجا کا گھر بتایا گیا ہے جہاں محمد علی جناح پیدا ہوئے، کیا خبران کے نانابھی اسماعیلی عقائد رکھتے ہوں، اب اس گھر کی بنیادیں نہیں بس ایک چٹیل میدان ہے جس پر آثار قدیم والے یادگار بنانے کاارادہ رکھتے ہیں، اسطرح گاو¿ں والوں کواس بہانے ایک پکی سڑک تو میسر آسکے گی۔
ہمارا قافلہ شاہ لطیف بھٹائی یونیورسٹی کے کمرہءملاقات میںپہنچا ہے اگرچہ اتوار کا دن ہے لیکن یونیورسٹی کے رجسٹرارڈاکٹر بدر اجن سچل چیئر کے ایاز گل، سندھی ا ور اردو کے جدید لب و لہجے اور نثری نظم کے شاعر ادل سومرو ، شعبہ اُردو کے ڈاکٹر محمد یوسف خشک مسز صوفیہ یوسف ، مختیارملک ،کوثربرڑو اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیوپاکستان خیرپورجو خود بھی خوبصورت شاعرہیں، اور کئی دوسرے لوگ بھی موجود ہیں خیرپوریونیورسٹی اُردو میں ایک تحقیقی مجلہ” الماس“ شائع کرتی ہے ، اس مجلے میںبنگلہ دیشی ، فرانسیی، بلوچی، سندھی ادب اور اقبالیات کے حوالے سے کئی مقالے بہت برسوں سے میری نظر سے گذرتے رہے ہیں، مجلے کا حصہ تعارفِ کتب“ بھی قابل تعریف ہے، تعارف کے سلسلے میں گذرنے کے بعد وفد کے اراکین کو اجرکیں اوڑھائی جارہی ہیں،ادل سومرو اور ایاز گل نے لائبریری اور یونیورسٹی کا میوزیم دکھایا ہے، سچل، لطیف بھٹائی، شیخ ایاز، اور سامی کی بڑی بڑی تصاویر کے ساتھ ساتھ ان کا کلام گانے والوں ، ان کے محققین ، شارحین ، مرتبین کی بھی تصاویر آویزاں ہیں ، ایک بڑا ہال مشاہیر کی کتابوں ، قلمی نسخوں اور محققین کی کتابوں سے بھرا پڑا ہے، سندھی اپنے اہلِ قلم اوراہل فن لوگوں سے جیسی محبت اور عقیدت رکھتے ہیںہمارے علاقوں میں اسکی مثال نہیں ملتی ، وہاں سے کھانا کھا کر رخصت ہونے لگے تو
ادل سومرو نے جے۔ ایم ۔گیر گیلانی کی کتاب ” شیخ ایازکی لافانی شاعری“ تحفے میںدی ،یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی اور اس کے دیباچے میں ادل سومرو نے لکھا ہے۔
” وہ زبان جسے اچھا لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی سنگت
میسررہی ہو وہ ہمیشہ زندہ اورپائندہ رہتی ہے، شیخ ایاز
ہمارا سرمایہ ہیں اور ہمیں ان پرفخر ہے، کتاب کا دوسرا
دیباچہ ہری دلگیر نے رقم کیا ہے ایاز کی ایک نظم
کا انگریزی ترجمہ کچھ اسطرح ہے۔
Silence is my death
I am a song........"
ایاز گل نے جو سچل چئیر کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیں ہمیں سچل سرمست اور خواجہ فرید کی فکری مماثلت کا تحفہ عطا کیاہے جس کی تلخیص و ترجمہ رشید احمدلاشاری نے کیا ہے اور جس کے مرتب الطاف اثیم ہیں
یار سجن تیری باندی ہاں اے دوست تیری کنیز ہوں
باندی گھول گھماندی ہاں تیری کنیز تجھ پر نثار ہے
تیڈے ہتھوں یار پیارا میرے پیارے اگر تیرے ہاتھوں
بے مراں تا چاندی ہاں مرجاو¿ں تو کھری اور خالص ہوجاو¿ں
دکھ ڈراپے رانجھن والے رانجھے کی سب معیبشیں
سارے سرتے چاہندی ہاں اپنے سرلینا چاہتی ہوں
سچل سرمست کا اصل نام عبدالوہاب ہے اور پیدائش دروازہ شریف ضلع خیرپور میرس سندھ ہے، ان کا انتقال نوے برس کی عمرمیں ۷۲۸۱ءمیں ہوا، سچل پر ایک کتاب ہمارے وفد کے ایک رکن ڈاکٹر طاہر تونسوی سے تحریر کی ہے، نام ہے ” سچل سرمست“ محبتوں کا شاعر“ اسے بھی خیرپور یونیورسٹی کی سچل چیئرنے شائع کیاہے، سچل بھی منصور کی طرح نعرہ زن ہے
کیا ہے دل پہ مرے عشق نے قیام اپنا
تمام نفل و فرائض کو اب سلام مرا
سچل کے فرمودات ولی دکنی، نعرتی اور غوامی کے علاوہ سراج کے بھی قریب ہیں جو قدیم ہندی/اُردو شاعری میںاپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔
ہمارے وفد کے ایک رکن اعزاز احمد آذر کہتے ہیں ، انسان بنیادی طورپر انسان ہے سکھِ اورپٹھان کیفیت کا نام ہے ان کی
مذاق میں کہی گئی بات سنجیدگی کے درجے تک پہنچے تو سوچناپڑتا ہے کہ سچل بھی کہیں کیفیت تو نہیںہے رات گئے جب ہم سچل کی مزار کی چار دیواری کے پاس پہنچے تو عجب سا اندھیرا تھا، سڑک پر دوچار ٹھیلے والے مزاراتی نوادرات سجائے بیٹھے تھے،بڑی گلی سنسان پڑی تھی، سب حاضری کےلئے اترے ، میں یونہی بیٹھی رہی یکایک مجھے لگا کسی نے میری کھڑکی کے پاس آکر کہا ہے توپھر ملاقات ادھوری رہے گی؟ میں سچل کی کیفیت سے عہدہ برآنہیں ہوسکی دل ہی دل میں صاحب مزار کے لئے دعائے خیرکی اور منیر نیازی کی طرح اپنے بھی چھوٹے موٹے گناہوں کے لئے معذرت چاہی، گاڑی چلنے لگی تو ایک سایہ دوُر تک آیا۔
میں یار ، یارہوں خود کچھ بھی نہیں تقاوت
سمجھا انا کے معنی دیگر کلام کیاہے؟
شاید اس انا ئے سبیط میں ایک پل کے لئے سب کچھ واحد ہوگیاتھا،
سچل کی نگری میں آنے سے پہلے کچھ لمحہ ’کوٹ ڈی جی‘ رکے ، علاقہ ناظم اور خاصخیلی صاحب استقبال کے لئے موجود تھے، قلعہ بلند ہے اور دیگر قلعوں کی طرح دورتک پھیلاہوا ہے فرق اتنا ہے کہ اس کا صدر دروازہ آبادی میں کھلتا ہے، یہیں سے قافلہ سبیتا اکیڈمی کی جانب سے اہتمام کردہ استقبالیے کے لئے ایک ہوٹل رایل ان (Royal inn) کی دوسری منزل تک پہنچا جس کا انتظام منظوراجن(سندھی ادبی سنگت کے خازن) اور ان کے ساتھیوں نے کیاتھا ، سبھیتا اکیڈمی ایک سندھی ادبی رسالہ بھی نکالتی ہے ، تعارف اور اجرک کی رسم سے فراغت ہوئی تو اردگرد دیکھنے کا موقع ملا ،مستطیل ہال دوسو کے قریب احباب سے بھرا پڑا تھا، یہ رانی پورکا بھرپور خیرمقدم تھا جس میںہر طبقہءفکر کے لوگ تھے یہیں منظور اجن نے اپنی اکیڈمی کی جانب سے وفد کے ہر رکن کی خدمت میں اس کی ادبی خدمات کے عوض ایک ایک شیلڈپیش کی جس پر رکن کا نام بھی کنداں تھا ، شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپورکے رجسٹرارڈاکٹر بدر اجن اس تقریب میں بھی ہمارے ساتھ رہے، موصوف ریٹائرڈ ڈی سی اورہوم سیکریٹری رہے ہیں سندھی میںڈاکٹریٹ کررکھی ہے، اپنا ایک انتظامی اور تعلیمی ویزن رکھتے ہیں ، سبتیا والوںکی گرم جوشی اور سندھی ادب پرستی نے ہمیں بہت متاثر کیا ، جب ہم رانی پور سے ایک طویل سفرکے بعد بھٹ شاہ پہنچے تو رات کے گیارہ بج چکے تھے، حکومت سندھ کلچر ڈیپارٹمنٹ نے شاہ لطیف بھٹائی کے زائرین کےلئے وزیراعظم بھٹو کے زمانے میںیہ ریسٹ ہاو¿س تعمیر کرایا تھا، جس کے کشادہ کمروں میں ہم آج کی رات قیام کرنے والے تھے،بھٹو کس ویزن کا شخص تھا اس نے ملکی غربت کے خاتمے کےلئے دوسرے ممالک کےلئے اپنی افرادی طاقت کے سمجھوتے کئے ، اپنے قومی اثاثوں سے آشنا کروانے کےلئے قیام گاہیں بنوائیں ، ایک لاکھ کے قریب جنگی قیدی ہندوستان کی قید سے آزاد کرائے، میرا بھائی بھی کبھی ان جنگی قیدیوں میں سے ایک تھا جس نے رانچی کے قید خانہ میں اپنی نوجوانی کے تین برس گذارے اور جب وہ واپس آیا تو اپنے معدے میں کبھی میں کبھی نہ ختم ہونے والا السر لایا، یہ بھٹو تھا جس نے قادیانی معاملے کو ہمیشہ کےلئے ختم کیا۔ مسلمان ممالک کی بین الاقوامی سربراہوں کی کانفرنس بلائی ، ۳۷۹۱ءکامتفقہ آئین پیش کیااور ہم نے کیاکیا؟ ہم چپ چاپ چھوٹے چھوٹے جھوٹون سے تیار کیاہوا بڑا مقدمہ دیکھتے رہے، خدائی مدد کے منتظررہے اور تارا میح اپنا کام کرگیا، کہیں لکھاہوا پڑھا ہے
کہ سولیوں پر کبھی گھاس نہیں اُگتی“
تو کیا اب کے یہ سولی کسی اور کی منتظر ہے؟
پندرہ جون کی صبح سب دیر تک پڑے سوتے رہے، ناشتے کے بعد ساڑھے گیارہ بجے مزار پرجانے کی تیاری شروع ہوئی ، کوڑل ڈھراج اکادمی ادبیات پاکستان کے صوبائی دفتر کے اھلکار ساتھی سب کا سامان فلائنگ کوچ میں لاد رہا تھا اور باہر لان میں بارش کے بعد ٹھنڈھی ہوا سبزے کو روند کرگذررہی تھی، شاہ عبدالطیف بھٹائی سندھ کے سب سے مقبول بلکہ سرتاج شاعر اور صوفی ہیں جن کے مزار پرسندھ اور ملتانی طرز کی کا شیگری کا کام کیا گیا ہے، سفید ، پیلا ، ناربخی، سبز ، فیروزی رنگ اور اس کے کئی شیڈ گبند کے گرد اپنی بہار دکھارہے ہیں ، لیکن مزار کی آرائش میں نیلا رنگ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، داتا صاحب کی کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ نیلا رنگ فراق اور جدائی کارنگ ہے اس لئے صوفی اسے اپنی رہائش اور لباس میںکثرت سے استعمال کرتے ہیں فراق میں ڈوبی ہوئی سفید چوکھٹوں والی یہ عمارت اپنے گر د محراب دار برآمدے رکھتی ہے، شاہ بھٹائی ؒ کے مزار کی فضا میں الجھن اور سکون آپس میں گتھم گتھا ہوگئے ہیں ۔ اس مزار کی مخصوص بات وہ تیس راگ کے سُرہیں جنہیں ہر دن اور اسکی کیفیت اور ہر رات اور اس کے اسرار سے جوڑا گیاہے، سُرکلیاں، سُرایمن، سُرکنھبات، سُرسوہنی سُرسری راگ، سُرسامونڈی، سُرآبری، سُرمعذوری،سُردیسی،سُرکوہیاری،سُرحسینی،سُرلیلاچنیسر،سُرمومل رانو،سُرمارئی، سُرکاموڈ، سُرگھاتو، سُرکیڈارو،سُرکاپئتی،سُرپورب، سُرکارایل، سُرپربھارتی، سُرڈھر، اور سُربلاول،ہرسُرکے ساتھ ایک کہانی اور ایک کیفیت جڑی ہوئی ہے، سُربلاول ایک کلاسیکل راگ ہے، اس سُرمیں شاہ صاحب نے سندھ کے نیم تاریخی کرداروں کے حوالے سے اپنے ممدوح کی ثنا کی ہے، ان کرداروں میں ایک کردار ”سمہ“ ہے جسے ہالار پہاڑ کا مالک کہاجاتاہے۔”پنجاب میں سموسٹہ ایک اسٹیشن کا نام بھی ہے یہ اصل لفظ سما سہتہ ہے جو سما قبائل کے نام ہےں“(مدیر) یہ سُرسنتے ہوئے یکدم اس شخصیت کا تصورنمایاں ہونے لگتا ہے جو بہادری اور سخاوت کی تعریف کا محورہے بے نظیر نے اپنے بیٹے کا نام ” بلاول“ شاید اسی سُرسے متاثر ہوکر رکھاہو، سندھ میںمخدوم بلاول نام کے ایک گیانی بزرگ کو مقبرہ بھی موجود ہے ، اس سُرکے دوبیتوں میںشاہ صاحب کہتے ہیں
”ہرگھاٹ پرمت رک کوئی بڑا سا چشمہ ڈھونڈلے
لطیف کہتا ہے کہ تو راہو کی راجدھانی تک پہنچے تو وہ تجھے
لاکھو دان دے گا
جس نے ناداروں کو نوازا اور امیر بنادیا ، جا اور اسکی شان دیکھ جب وہ سراٹھا کر بات کرتا ہے تو کروڑوں دلوں کے دکھ دھودیتا ہے۔
کم ازکم دس بارہ سا زندوں اور گویوں کا گروہ قدیم لباس اور قدیم حالیہ میںھمہ وقت مزار کے صدر دروازے کے سامنے فقیر کی درگاہ کی سمت منہ کئے نیم دائرہ بنائے کوئی ایک راگ صبح تا شام الاپتا رہتاہے ، اس ذکر کی سربراہی درگاہ کا کُنجی بردار کرتاہے ذکر اور دعا کے بعد تبرک تقسیم ہوتاہے ، دھمال اور نوبت یعنی شہنائی بھی شاہ کی درگاہ کی خاص رسم ہے ،یہ رسم چند مخصوص درویش ادا کرتے ہیں جنہیں گرناری فقیر کہا جاتا ہے ، شاہ کے موسیقار تان پورہ (طنبورہ ) بھی بجاتے ہیں ، شاہ نے چار تار کے تان پورے میں ایک تار کااضافہ کیاتھا، اس لئے اب لفظ طبورو ان پانچ تاروں والے تان پورے کےلئے استعمال ہوتا ہے ، انیسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی جامشورو یونیورسٹی نے ہمیں کچھ دن پہلے ” سُرکلیان“ کا ایک وڈیو/آڈیو کیسٹ دیاہے جو محمد قاسم ماکاکی پیش کش ہے اور اس میں سندھ کے تمام ساز الغوزہ، بانسری ، طنبورہ، چنگ وغیرہ شامل ہیں، اس کا نام بھی ” سندھ کے ساز“ رکھا گیا ہے،
شاھ لطیف نے شاعری میں بیت اور وائی کے نمونے پیش کئے ہیں، شاہ کے کلام کےلئے سندھی میں ” شاہ جو رسالو“ یعنی شاہ کا پیغام ) کی مخصوص اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کلام کو مختلف طریقی سے اکٹھا گیا ہے، اُردو میں شیخ ایاز ، ایم۔ اے ، عالمانی ، آغا سلیم ، ایاز قادری اور وقاراحمد رضوی نے یہ کلام ترجمہ کیا ہے،آغا محمد یعقوب اور پروفیسر امینہ خمیسانی اور علامہ آئی آئی قاضی کی جرمن اھلیہ ایلسا قاضی، ڈاکٹر سورلے نے ان کا انگریزی ترجمہ کیا ہے اور فارسی میں نیاز ہمایونی نے کیا ہے اور عربی میںڈاکٹر سومرو نے مکمل ترجمہ کیا ہے (مدیر) آغا سلیم نے اس کا انگریزی اور اردو ترجمہ ۹۰۰۲ میں مکمل کیا ہے جو محکمہ ثقافت حکومت سندھ نے شایع کیاہے، شیخ ایاز نے اپنی ایک نظم میںلکھا ہے
اچھا اب میں چلا بھٹائی
میں تیرا احسان بُھلادوں
یہ تو ناممکن ہے، سائیں
توتو ہر نربل کا سہارا
سنگ سدا تیری پر چھائیں
لیکن آج مجھے جاناہے
طغیانی میں طوفانوں میں
اس رُت کی ہے ریت نرالی
شور کرے جو شریانوں میں
دوُر ہوکتنا ہی وہ ساحل
پر سیتاہوں اس کی صدا میں
جودنیا تو نے جوڑی تھی
آج اسی پر دو¿ر چلامیں
اچھا اب میں چلا بھٹائی
جس وقت ہم نے شاہ بھٹائی سے رخصت چاہی شاہ کے بنجارے سُرکلیان میں مگن تھے، ہمارے سروں پر سندھی اجرکیں تھیں اور دل ایک الوہی محبت میں دھڑک رہے تھے۔
بھٹ شاہ سے کراچی کا فاصلہ بہت تھا، ساڑھے تین بجے قصرِناز لاجز کے کمرہ¾ ملاقات میں ایک کپ چائے کے بعد گورنر ہاو¿س کی جانب روانہ ہوئے چار بج کر دس منٹ پر ہم قدیم گورنر ہاو¿س کی سرخ دبیز قالین سے ڈھکی ہوئی نقرئی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ایک بڑے استقبالیہ ہال سے گذرے کر کمرہءملاقات میں پہنچے تو تھوڑی دیر بعد دائیں جانب سے ڈاکٹر عشرت العباد ظاہر ہوئے ، بڑے ہی شگفتہ اور شائستہ موڈ میں ، تعارف کے بعد ڈائریکٹرجنرل ظہیرالدین ملک نے انہیں اکادمی کی کتابوں کا تحفہ پیش کیا گورنر کافی دیر تک پاکستانی حالات،قومی یکجہتی اور ون پوائنٹ ایجنڈے پر بات کرتے رہے، چائے کے بعد ایک گروپ فوٹو ہوا، رخصت چاہی گئی اور پھر ایک طویل راہداری میں پاکستانی تاریخ سے متعلق تصاویر اور ماڈلز دیکھتے ہوئے ہم اس کمرے تک پہنچے جہاں قائداعظم کے زمانے کا کچھ فرنیچر محفوظ کیاگیا ہے، ہر طرح کی احتیاط کے باوجود کمرہ اور فرنیچر پرانے پن کی خوشبو سے مہک رہا تھا جیسے بوڑھے لوگوں کے بدن ایک خاص طرح کی پرانی خوشبو کی ترجمانی کرتے ہیں، گورنر ہاو¿س سے ملحقہ کرائم کنٹرول سنٹر بھی دیکھا گیا ، جدید انفراسڑکچر اور جدید ٹیکنالوجی سے اغواءاور قتل کی دار داتوں کو روکنے کے لئے یہ سنٹر اپنا مثبت رول ادا کررہا ہے واپسی پر وفد کے اراکین کراچی طارق روڈصدر ایلفی( زیب النساءاسٹریٹ) اور دوسرے علاقوں سے شاپنگ کرنا چاہتے تھے ، میں تھوڑی دیرکےلئے قصرِناز کمپاو¿نڈ کے سبزہ زار میں اُتر گئی ، چھ بجے کے قریب کلب ممبران کی آمد سے اس جگہ کی رونق میں اضافہ ہونے لگا ، قصرِ ناز کی سبزگھاس پر بیٹھے بیٹھے میں نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا سیلٹی ، میلا اور بجھا ہوا آسمان پرندوں کے غولوں سے اٹاپڑا تھا اور ذراسی تیز ہوا میں سینکڑوں پولیتھن بیگ فضا میں گول گول گھوم رہے تھے، مجھے بزرگ صوفیاءکی سمادھیوںکے ساتھ ساتھ پرسی بشے شیلے کی نظم کی کچھ لائینس یاد آنے لگیں۔
"Drive my dead thoughts over the Universe like withered leaves to quicken a new birth!
And, by the in cantation of this verse Secatter, as form an Unexting vished hearth Ashes and spark , my words among mankindn!
یہ سب دن اورالفاظ بکھری ہوئی راکھ میں تبدیل ہوچکے تھے اور اب یہ راکھ ہماری زندگی کے سفر کے پیروں سے لپٹی ہوئی تھی جسے لہذا لہذا ہماری دنیاو¿ں اورہمارے لوگوں میں تقسیم ہوتا تھا، آسمان کچھ اور سرمئی ہوگیا وفدکے اراکین خریدوفروخت سے لوٹ آئے تھے اورہم رائٹرگلڈسندھ کے ممبران کی جانب سے دئیے گئے عشائیے میں جارہے تھے جسے شہر کے مخدوش حالات کے پیش نظر ایک بزرگ شاعر نیر سوز کی رہائش گاہ واقع ناظم آبادپر رکھا گیا تھا، دس پندرہ ادیبوں میں گیارہ مزید مہمانوںکا اضافہ ہوگیا،
تعارف کے بعد محترم احمد عمر شریف سیکریٹری رائٹرز گلڈ سندھ نے استقبالیہ پیش کیا ، بزرگ شاعر منظر ایوبی بھی تشریف فرماتھے اور کچھ نوجوان شعراءاورا فسانہ نگار بھی رائٹرگلڈ کے قصے اور اکیڈمی کی گرانٹس کی کمی کے بارے میں مختلف قسم کی گفتگو ہوتی رہی، ازاں بعد سب شعراءکے اپنا کلام سنایا ، منظر ایوبی کی غزل عصری تناظر کے لحاظ سے بہت اچھی تھی احمد عمر شریف نے مترنم لب ولہجے میں گیت سنایا ، نیر سوز نے اپنی غزل پیش کی
قصہ¿ عمر رواں ختم ہے اس مصرعے پر
خواب سے خواب جدا ہوگیا تعبیر سے میں
اس محفل میں اُردو کی پرانی اور کلاسیکی تہذیب کی جو خُوبُو تھی اس کا ذائقہ سوز صاحب کے گھرمیں تیار کردہ پلاو¿ کباب اور فیرنی میں بھی موجود تھا اس تہذیبی نظام کی حفاظت بھی ضروری ہے جو صدیوں تک شائستگی ، رکھ رکھاو¿ اور مہمان نوازی کی علامت بنارہا ، تقریب کے اختتام پرنیرسوز نے اپنی کتاب ” غزل بساط“ کے تحفے سے نوازا ، دوشعر دیکھئے
مجھ کو اُداس کرکے رہِ بے چراغ میں
اب کس کے آسمان کا ستارہ ہوا ہے وہ
ٹوٹا فنونِ سلسلہ ¿ شب تویہ کُھلا
منزل سمجھ لیا تھا جسے راستہ ہے وہ
زیب اذکار کے افسانوں کے مجموعے ” دورازکار افسانے“ کے صفحات پلٹتے رات بارہ بجے پاکستان اسٹیل مل گیسٹ ہاو¿س روانہ ہوئے، وہاں پہنچے تو دوبج چکے تھے اورابھی اس شاہین کو تھکے ہوئے پروں اور سُوجے ہوئے پیروں کے ساتھ پہاڑوں کی بجائے تیسری منزل کے کسی آخر کمرے میں قیام کرنا تھا سیڑھیاں طے کرتے ہوئے اپنا ایک شعر یاد آگیا۔
اب اجتناب سفر کی بھی کیا ضرورت ہے
سفر کی دھول تو پیروںمیں آکے بیٹھ گئی
آنکھوں میں تمام رات قلعے ، مقابر ، ارواح، سسی، بے نظیر، ذوالفقار علی بھٹو، اور سچل سرمست شاہ لطیف کے ہیوالے گھومتے رہے، سلسلہ¿ دار سے قتلِ بازار تک آنکھوں کے سامنے لہو کا سمندر بہتا رہا ایک جہاز سے سبز پوشاک پہنے بے نظیر اورایک ریل گاڑی سے اترتے گاندھی جی دونوں خیالات کے ہجوم کی نذر ہوئے، یہ کس کی موت تھی جس پر زندگی رشک کرتی رہے گی، ایک مبہم رت جگے کے بعد صبح اٹھے تو سامان کوچ میں رکھا جاچکا ہے ڈاکٹر رشید امجد، احسان اکبر میں اور آسیہ ناشتے کے بعد سفرکےلئے اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے، ڈی جی ظہر ملک صاحب نے گیسٹ ہاو¿س سے ہی خداحافظ کہااور آغا نورمحمدپٹھان ہوائے اڈے تک ساتھ آئے، چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان محترم فخرزمان نے بین الصوبائی ادیبوں کی رابطہ مہم کا جو پلان بنا یاتھا ۔
وہ یقینا اس میں کامیاب رہے تھے،فخرزمان جو پنجابی زبان کے منفرد ناول نگار اور پاکستان کے ترقی پسند دانشور ہیں ان کی
اپنی تحریریں انسانی عدم انصاف ، سماجی اونچ نیچ اور مزاحمت وانقلاب کے احساسات کا بہترین نمونہ ہیں خاص طورپر ان کا ناول ”بندی وان“جیسے بیسویں صدی کا ملینم ایوارڈ مل چکا ہے تصوف ، لوک ورثے ، پاکستانی شاعری ، اشتراکیت اور جمہوریت کے مباحث اور انسانی موجودگی کی مخصوص اہمیت کا نمائندہ ہے ، جہاز چلنے لگا تو خیال نے مہمیز لگائی ، کھڑ کی سے کہیں دور فخرزمان کے زیڈ اپنے بندی خانے سے اپنی بلبل کو آزاد کرچکا تھا بس پھانسی گھاٹ پرایک سایہ ساپڑارہا تھا ، اس سائے کی
چھاو¿ں تلے پاکستان کے مجبور اور مقہور لوگوں نے گُلی ، جُلی اور کُلی ( روٹی، کپڑا اور مکان) کے سرسبز خواب دیکھے تھے خوابوں کا ریشم ابھی تک الُجھا پڑا تھا اور جہاز کے پچھلے حصے میں میرے سے کسی کمسن بچے کی کلکاریوں کی صدا آرہی تھی شاید یہی آواز کسی آئندہ زمانے میں آزادیءجمہورکی فضا میں شاہ لطیف بھٹائی کا راگ بلاول گائے۔
سب کچھ ہمارے ساتھ چلاآیا تھا ۔ سندھ کی محبت، سوکھی ہوئی زمین کی پیاسی مٹی کے سلسلہ وار گھروندے ، مجبور مقہور ہاری ، نیم برہنہ کسان عورتیں،وڈیروںکے بند اوطاق ،ادیبوں کی عنایات عوام الناس کی چمکتی آنکھیں اجرک کا احساسِ تحفظ اور گذر جانے والوں کی یادیں ، ان دنوں کے پکھرو ہماری یاد کے پنجرے میں بند تھے، وقت کا ” اباسین“ اپنی رفتار سے بہہ رہا تھا یقینا ہم کہیں پچھے رہ گئے تھے۔ جہاز نے اپنی رفتار اور بلندی کا تعین کیا تو ہم نے دل ہی دل میں اکادمی ادبیات پاکستان ، حکومت سندھ اور ان کے کلچر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں ۔ درالحکومت بس ایک گھنٹہ کے فاصلے پر تھا
کتابیات
۱۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی حیات و افکار (الف) از منظور قناصرو
۲۔ دنیاز ادرکتابی سلسلہ (الف ) از آصف فرخی
۳۔ فراق جی منزل (س) از منظور کوھیار
۴۔ حلقہ میری زنجیر کا ( شیخ ایازکے منتخب) (الف) فہمیدہ ریاض
۵۔ سچل سرمست (محبتوں کا پیامبر ) (الف) ڈاکٹر طاہر تونسوی
۶۔Shaikh Aziz History of Sindhi literature
۷۔ دوراز کار افسانے (الف) زیب اذکار
۸۔ Selected verses from shah jo Risalo (انگ ) فیض محمد کھوسو
۹۔ سچل سرمست اور خواجہ فرید (الف) ترجمہ رشید احمد لاشاری
۰۱۔ Sindhi Language and Literature (A brief Account)(انگ) انور پیرزادو
۱۱۔ Immortal Poetry of Sheikh Ayaz(انگ)J.M Giralani
۲۱۔ چچ نامہ (الف ) مترجم اختر رضوی
۳۱۔ Sindhi Language (انگ) Dr. Amjad Siraj
۴۱۔ غزل بساط (الف ) نیر سوز
۵۱۔Shah, Sachal , Sami (انگ )Mohammad Ibrahim Joyo
۶۱۔ Melodies of Shah Abdul Lateef Bhitai (انگ) Agha Saleem
۷۱۔شعور ، شاعر ، شاعری (س) ڈاکٹر سحرامداد
۸۱۔ شاہ جو رسالو (س ) ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ
۹۱۔ Banbhore (انگ) Department of Archaeology & Museums of Paksitan
۰۲۔ The Archaeology (انگ) Editor Haleem Sharar
۱۲۔ The Voice from Wilderness (انگ) T. L. Vaswani
۲۲۔ بندی وان (پ) فخرزمان